فروری 1979ء میں آیت اللہ خمینی کی تہران آمد کے چند دن بعد چار پاکستانی طالب علم ایک مضافاتی ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے جب انہیں کلاشنکوف بردار ایرانی پاسداران انقلاب نے گھیر لیا۔ ان چار طالب علموں میں سے ایک کی حیثیت سے میں نے حال ہی میں ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر پیش آئے واقعے کو بیان کیا۔ شاہ ایران کے بھاگنے پر عوام اتنے خوش ہوئے کہ مٹھائی بیچنے والی دکانیں خالی ہو گئیں۔ لوگ خوشی سے نڈھال ہوکر سڑکوں پر نکل آئے اور شاہ کی تصویر کے ساتھ کرنسی نوٹ آویزاں کر رہے تھے۔ نوجوان ’شاہ کشتی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ خالی چھاؤنیوں سے لوٹے گئے اے پی سی اور ٹینکوں کو تہران کی سڑکوں پر نوجوانوں کی طرف سے چلایا جا رہا تھا۔ ہم چاروں ساتھیوں‘ جن کی پرورش مغرب پر مبنی انگریزی میڈیم کے ماحول میں ہوئی تھی‘ اس وقت الجھن کا شکار تھے۔ ہمیں ایران کے شہریوں سے ہمدردی تھی‘ جن کی سوچ کو قبضے میں لے لیا گیا تھا۔ ہم پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے خود کو خوش قسمت محسوس کر رہے تھے کہ جہاں ہمارے تمام تر جمہوری عزائم کے باوجود (ذوالفقار علی بھٹو پر مقدمہ چل رہا تھا لیکن ابھی تک پھانسی نہیں دی گئی تھی) ہمارے ہاں ایک روادار حکومت تھی۔ ایران کی خفیہ سروس ساواک بے رحم تھی۔ آیت اللہ خمینی کی آمد نے شہری آزادیوں پر قدغن لگانے کا اعلان کیا۔ مثال کے طور پر خواتین‘ جن میں سے زیادہ تر عوامی مقامات پر ٹائٹ جینز اور شارٹ سکرٹ پہننے کی عادی تھیں‘ اب حجاب کے بغیر اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ ہماری ہمدردیاں مغرب پسند طبقے کے ساتھیوں کے ساتھ تھیں‘ جن میں سے زیادہ تر کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ ہم نے محسوس کیا کہ ایران ناتجربہ کار اور قدامت پسندوں کے ہاتھوں طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے۔ پینتالیس سال بعد ایرانی مسلح افواج کو خطے کے سب سے بڑے غنڈہ گرد ملک یعنی اسرائیل کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھنے کے بعد اور اسے ٹیکنالوجی اور انتہائی سوچی سمجھی عسکری حکمت عملی کے مظاہرے سے میں اپنا ذہن تبدیل کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ ایرانیوں نے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی آسائشوں سے زیادہ اپنی عزت نفس اور عقیدے کو اہمیت دیتے ہیں۔ تنہائی اور معاشی محرومیوں اور ایرانی شہریوں کو ہراساں کئے جانے کے باوجود انہوں نے پینتالیس برس میں دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔ اپنے حوصلے اور قومی فخر کی وجہ سے‘ وہ مقامی صنعت‘ تجارتی اور فوجی حکمت عملیوں کے ساتھ خود کفیل اور قابل فخر قوم ہیں۔ پابندیوں کا سامنا کرنے کے باوجود ان کی فوجی طاقت قابل ستائش ہے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک تصویر جس میں ان کی فوجی ہائی کمان کو سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قدموں میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے‘ جب انہوں نے انہیں اسرائیلی آپریشن پر مبارکباد دی تھی تو ایک پاکستانی کیلئے یہ سب غیر حقیقی تھا۔ جابر حکومت کے باوجود ایرانیوں کا اپنی ثقافت اور تاریخ پر فخر سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر امر ہے۔ ایران کا نیا سال نوروز کہلاتا ہے جو بنیادی طور پر زرتشتی تہوار ہے‘ اور یہ اب بھی ایران کے کیلنڈر میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس جشن کو منانے کیلئے تین ہفتوں کیلئے ملک بند کر دیا جاتا ہے۔ ایران میں حکومت شہریوں کی پرائیویسی (چادر اور چاردیواری) کا حد سے زیادہ احترام کرتی ہے اور اس اصول پر یقین رکھتی ہے کہ اگر آپ اپنے گھر کے اندر ہیں اور گھر کے اندر جو کچھ بھی کرتے ہیں تو یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے اور اس میں ریاست مداخلت نہیں کریگی۔ جن لوگوں نے حال ہی میں ایران کا سفر کیا ہے وہ ایک صاف ستھرے‘ ترقی یافتہ ملک اور ایک سلجھے ہوئے معاشرے کا تذکرہ کرتے ہیں‘ جو اقدار کا پاسدار ہے اور برداشت و ترقی پر مبنی سوچ رکھتا ہے‘ ایران میں سڑکیں اچھی ہیں۔ ایک مؤثر اور جدید ریلوے نظام اور بڑے جدید شاپنگ مالز ہیں‘ ایران میں خواندگی کی شرح پاکستان کی شرح یعنی اٹھاون فیصد کے مقابلے میں 89فیصد ہے۔ ایران میں قومی آمدنی کا بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے اور ہر سال بجٹ کا 23 فیصد تعلیم کیلئے مختص ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں بمشکل ساڑھے گیارہ فیصد شعبہئ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ ایران میں صحت عامہ کے شعبے پر قومی آمدنی کا 23 فیصد ہر سال خرچ کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں 4.3 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے اور اس میں سے بھی بڑا حصہ تنخواہوں اور ملازمین کو دی جانے والی مراعات کی نذر ہو رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ایران میں انسانی (افرادی قوت کی) ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ایران کو بدعنوانی سمیت بہت سے مسائل درپیش ہیں لیکن وہ اب بھی گلوبل کرپشن انڈیکس میں چوبیسویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان 133ویں نمبر پر ہے! پاکستان کا ایران اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ موازنہ کرنا بھی مایوس کن ہے‘ بھارت اور بنگلہ دیش اقتصادی اور انسانی ترقی کے اشارئیوں میں پاکستان سے بہت آگے ہیں‘ یہاں تک کہ افغانستان بھی امن و امان کے حوالے بہت بہتر دکھائی دیتا ہے۔ معاشی محاذ پر‘ ایران کی کرنسی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے‘ چار پاکستانی روپے ایک افغانی کے برابر ہیں۔ (مضمون نگار سابق سرکاری ملازم ہیں۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر تسنیم نورانی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک امریکہ تعلقات: ترقیاتی امکانات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سماجی ارتقائ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام