معیاری تعلیم: یکساں حق

’ایچی سن کالج (لاہور) میں سرمایہ داروں اور بااثر طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو داخلہ دینے کے خلاف احتجاج اگر ملکی ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل نہیں کر رہا تو عالمی ذرائع ابلاغ اِس موضوع کو خاص اہمیت دیئے ہوئے ہیں اور برطانیہ کا معروف روزنامہ ’دی گارڈین‘ نے پاکستان میں معیاری تعلیم پر عوام کے یکساں حق کے حوالے سے خصوصی مضامین کی سلسلہ وار اقساط شائع کی ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ برطانوی روزنامہ دی گارڈین کی 9 جولائی 2014ء کے شمارے کی سرخی تھی کہ ’ایچی سن کالج‘ کے بورڈ آف گورنرز نے داخلے کے لئے رشتہ داری کا استحقاق ختم کر دیا اور داخلے کے لئے مکمل میرٹ کی پالیسی اپنائی ہے۔ ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز (بی او جی) پر سابق طالب علموں کا غلبہ ہے۔ ایک سینئر بیوروکریٹ کے درمیان حالیہ کشمکش کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے اٹھایا تو اِس مسئلے نے پرنسپل مائیکل تھامپسن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا‘ یہ استعفیٰ کسی تعلیمی پہلو پر تنازعہ کی وجہ سے نہیں بلکہ والدین کی خواہش کی وجہ سے سامنے آیا جو بہرصورت اپنے بچوں کے لئے ایچی سن کالج جیسے باوقار ادارے سے تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔شعبہئ تعلیم میں امتیازی سلوک صرف پاکستان کا نہیں بلکہ یہ پوری انسانی تاریخ میں ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔ ہمیشہ ہی سے طاقتور گروہ یا مراعات یافتہ طبقات معیاری تعلیم تک رسائی رکھتے ہوئے اِسے دیگر طبقات کے لئے محدود کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تمام سرکاری ادارے رقبے‘ عمارتوں، تدریسی سہولیات‘ نصاب‘ تدریسی فیکلٹی کی اہلیت اور ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے
 مختص مالی وسائل (بجٹ) کے لحاظ سے یکساں اور معیاری نہیں ہیں۔ دوسری جانب اعلیٰ معیار کے نجی سکول جہاں چھوٹی کلاسوں اور جدید سہولیات کے ساتھ اعلیٰ تعلیم فراہم کی جاتی ہے وہیں اپنی بھاری فیسوں کی وجہ سے آبادی کی اکثریت کے لئے ناقابل رسائی ہیں۔ اس سے ایک سطحی تعلیمی نظام پیدا ہوتا ہے جو معاشرتی عدم مساوات کو برقرار رکھتا ہے۔ ایچی سن کالج لاہور‘ لارنس کالج مری اور صادق پبلک سکول بہاولپور جیسے تاریخی طور پر ایلیٹ سکولوں کے علاؤہ‘ پنجاب میں بیس دانش سکول اور پندرہ ڈویژنل پبلک سکول ہیں اور ملک میں تقریباً چالیس کیڈٹ کالجز وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام ہیں‘ جہاں عام سرکاری سکولوں کے مقابلے میں جدید سہولیات اور بہتر معیار کی تعلیم دی جاتی ہے اگرچہ دانش سکول اور کیڈٹ کالجز دونوں کی تعمیر‘ فرنیچر‘ فکسچر اور آپریشنز کے اخراجات تقریباً یکساں ہیں لیکن صرف دانش سکولوں کے تصور اور اخراجات پر تنقید کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کیڈٹ کالجوں کا تصور اور ماڈل صرف برصغیر پاک و ہند تک ہی مخصوص ہے اور اس منفرد قسم کے تعلیمی ادارے دنیا کے کسی دوسرے ملک کے سول سیٹ اپ میں نہیں پائے جاتے۔ برطانوی حکمرانوں نے 1922ء میں برصغیر میں پہلا کیڈٹ کالج قائم کیا‘ جس سے بنیادی طور پر نوجوانوں کی ایک اچھی طرح سے تربیت یافتہ کھیپ تیار ہوئی اور اِسے بآسانی فوج میں شامل کیا جاسکتا تھا۔ آزادی کے بعد بھارت نے سویلین طالب علموں کے لئے کوئی کیڈٹ کالج قائم نہیں کیا تاہم پاکستان نے نوآبادیاتی دور کے اس منفرد ماڈل کو فروغ دیا ہے۔ 1952ء میں حسن ابدال میں صرف ایک کیڈٹ کالج تھا۔ دوسرا کیڈٹ کالج 1957ء میں پیٹارو میں قائم کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ترجیح اپنے آبائی ضلع لاڑکانہ میں کیڈٹ کالج قائم کرنا تھا جس کا حکم انہوں نے 1975ء میں دیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے یہ مشن مکمل کیا اور لاڑکانہ میں کیڈٹ کالج کا قیام 1992ء میں عمل میں آیا۔ سال دوہزار آٹھ سے دوہزارتیرہ تک جب اُس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف جنوبی پنجاب میں دانش سکول قائم کر رہے تھے تو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور سندھ حکومت سندھ میں مزید کیڈٹ کالجز قائم کرنے کے لئے وسائل مختص کئے تھے جبکہ شہباز شریف نے اس عرصے کے دوران پنجاب میں کسی کیڈٹ کالج کے قیام کی منظوری نہیں دی جبکہ آصف علی زرداری‘ جو خود پیٹارو کیڈٹ کالج (جامشورو) کے گریجویٹ ہیں‘ نے صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنے پہلے دور میں سات کیڈٹ کالجوں کے قیام پر کام شروع کیا۔ اِس وقت سندھ میں بارہ کیڈٹ کالجز ہیں جن میں سے سات دوہزارآٹھ سے دوہزارتیرہ تک منظور شدہ ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک کے تقریباً چالیس کیڈٹ کالجوں میں سے صرف تین لڑکیوں کے لئے ہیں۔ دوسری طرف‘ تمام دانش سکول لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے
 ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دانش سکول صنفی متوازن ہیں۔ مقصد کیڈٹ کالجوں کی اہمیت کو کم کرنا نہیں بلکہ کیڈٹ کالجوں کی ضرورت نہ صرف دفاعی مقاصد کے لئے ہے بلکہ حب الوطنی پیدا کرنے اور سرحدی علاقوں میں لوگوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے بھی ضروری ہے۔ اسی طرح کی دلیل ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے غریب لوگوں کے لئے مفت معیاری تعلیم اور دانش سکولوں جیسی رہائشی سہولیات پر لاگو ہونی چاہئے۔دانش سکولوں کے ارد گرد منڈلاتے خدشات بنیادی طور پر تین اہم نقطہ ہائے نظر پیدا ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسابقتی سیاسی شخصیات کی جانب سے شروع کئے جانے والے اقدامات کے خلاف سیاسی مخالفت کی جاتی ہے‘ جو اکثر دشمنی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس طرح کی سیاسی محرکات پر مبنی تنقید دور اندیشی ہوسکتی ہے اور عوامی بھلائی کے لئے فائدہ مند اقدامات پر پیش رفت میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کچھ شہری دانشور جو تعلیم تک عالمگیر رسائی کے تصور کی وکالت کرتے ہیں وہ پسماندہ طلبہ کے لئے معیاری تعلیم کے خیال کی حمایت نہیں کرتے یا ایسا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ان کے اپنے بچے ممکنہ طور پر مہنگے نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ جس سے ممکنہ طور پر دانش سکولوں کے بارے میں عدم اتفاق کا احساس پیدا ہوتا ہے جو تعلیمی نظام کے لئے خلل ہیں۔ حقیقی معنوں میں مساوی تعلیمی نظام صرف چند مراعات یافتہ افراد کے لئے نہیں بلکہ سبھی کے لئے معیاری تعلیم یقینی بنائی جانی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ارشد سعید خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)