عالمی معیشت ترقی کے مراحل سے گزر رہی ہے‘یہ مراحل ’لائز فیئر‘ سے ’نیو لبرل ازم‘ تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ مرکزی منصوبہ بندی کا سوشلسٹ تصور بھی ہے جو بند معیشت کی طرف لے جاتی ہے‘ اب تک تیار کیا گیا سب سے زیادہ سازگار معاشی و قومی تصور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کا ہے‘ جس میں بہت سے ممالک سرکاری ملکیت والی کمپنیوں کی نجکاری کا انتخاب کرتے ہیں‘ یہ تصورات بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ماہرین معاشیات کی ایجاد ہیں اور اِس پر نجی شعبے کا غلبہ ہوتا ہے جبکہ ریاست (حکومت) کا کردار ریگولیٹر کی صورت محدود ہوتا ہے۔‘پاکستان جیسے ممالک کے لئے سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا پی پی پیز یا نجکاری کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے یا معاشی ترقی کے لئے دونوں کے ہائبرڈ مرکب کو اپنایا جائے۔پاکستان اپنی 76 سالہ تاریخ میں مختلف دلچسپ تجربات سے گزرا ہے‘ جس میں نجی شعبے سے لے کر ترقی کی جانب پیش قدمی‘ اس کے بعد نیشنلائزیشن اور پھر نجی شعبے کی جانب سے ترقی پر قبضہ شامل ہے اگرچہ سرکاری شعبے کے ادارے (پی ایس ایز) بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہوتے ہیں اور یہ روزگار کی فراہمی کے مقاصد کے لئے اقتصادی منصوبہ بندی کا اہم حصہ رہتے ہیں لیکن نجی شعبے کی اجارہ داری اور کارٹلائزیشن میں روزگار کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں کیونکہ نجی اداروں کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ترجیح ہوتا ہے۔ پاکستان میں سرکاری و نجی شعبے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں جس میں ریاستی ادارے بھی شامل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ترقی کرنے اور پاکستانیوں کی توقعات پر حکومت پورا اترنے کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہے حالانکہ اس میں اعلی ترقی اور ایشیائی ٹائیگر بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ایک ہائبرڈ سیاسی نظام مضبوط ترقی کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر غیر ملکی قرضوں‘ اِمداد اور مغربی ممالک کے سپورٹ پروگراموں پر انحصار کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت ہے جس میں حکومت
کی جانب سے صورتحال سے نمٹنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ فی الوقت پاکستان ایک چوراہے پر کھڑا ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے غیر مقبول فیصلے مجبوری ہے۔ نجکاری کے ذریعے ایس او ایز سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ تنقید کی زد میں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی آئی اے اور دیگر ایس او ایز کی نجکاری کے حکومتی فیصلے کی مخالفت کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مکمل نجکاری کے بجائے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی طرف جانا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی و قومی ترقی کے کس راستے پر جانا چاہئے اور پاکستان کے لئے سب سے بہتر راستہ کیا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہائبرڈ ماڈل اچھی طرح سے کام کرے گا۔ حکومت کا پی آئی اے جیسے ایس او ایز کی نجکاری کا فیصلہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہو سکتا ہے تاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں اس طرح کی نجکاری کا عمل خطرے کا باعث بنتا ہے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ نواز شریف کے پہلے دور حکومت کے دوران نجکاری کا آخری عمل ان خبروں اور الزامات سے بھرا ہوا تھا کہ ایم سی بی جیسے پی ایس ایز کو قریبی ساتھیوں اور سرمایہ کاروں کو فروخت کرکے ذاتی مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نجکاری‘ قطع نظر اس کے کہ یہ کہیں بھی ہوئی اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، ہمیشہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف اسی طرح کے الزامات کا باعث بنتی ہے لیکن چونکہ اس طرح کے الزامات میں کچھ وزن ہوتا ہے‘ اس لئے بہتر ہے کہ کسی بھی غلطیسے بچنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ تمام عمل شفاف ہونا چاہئے۔ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں مضبوط نجی شعبہ ہے جو معاشی
ترقی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے اور یہ معاشرتی اشارئیوں کو فروغ دیتا ہے۔ ان میں حکومتوں کا کردار کاروبار چلانے کے بجائے ریگولیٹرز کے طور پر کام کرنے تک محدود ہے لیکن عوامی جمہوریہ چین کی کہانی بالکل مختلف ہے۔ چینی حکومت نے معاشی ترقی کے ہائبرڈ ماڈل کا انتخاب کیا۔ حکومت نجی سرمایہ کاروں کے لئے صنعت اور کارپوریشنوں میں سرمایہ کاری کے لئے حصص جاری کرتی ہے جبکہ زیادہ تر حصص اپنے پاس رکھتی ہے۔ فیصلہ سازی میں ریاست کے کردار کو کمزور نہیں کیا جاتا بلکہ مشاورتی عمل سے بہتر بنایا جاتا ہے۔ چین اقتصادی محاذ پر اِسی وجہ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں (ایس او ایز) سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو مستقبل کی معاشی ترقی کے لئے ماڈل اپنانے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت پہلے ہی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ 2017ء منظور کرچکی ہے اور اب کابینہ نے مشاورتی عمل کے بعد پی پی پی پالیسی (پی تھری پالیسی) کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ پاکستانیوں کے لئے اچھی خبر ہے کہ حکومت پی ماڈل کو اپنا رہی ہے اور پی موڈ کے ذریعے نجی شعبے کو شامل کرکے اپنے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے گی۔ حکومت نجی شعبے کو سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرنے کے لئے وسائل فراہم کرے۔ اس ماڈل کو تیل اور گیس کے شعبے میں بھی استعمال کیا جانا چاہئے تاہم تشویش کا باعث بجلی کا شعبہ ہو سکتا ہے۔ ڈی آئی ایس سی اوز کو پی موڈ کے ذریعے چلنا ہوگا۔ ان پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ نجی سرمایہ کار حصص اور مینجمنٹ حاصل کرنے میں زیادہ خوش ہوں گے جیسا کہ پی ٹی سی ایل کے معاملے میں دیکھا گیا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو سرمایہ کاروں کو فراہم کرے تاکہ اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے۔ پاکستان کے پاس پی تھری ماڈل کے علاؤہ معاشی و قومی ترقی کا کوئی دوسرا ماڈل نہیں ہے۔ (مضمون نگار سابق ایڈیشنل سیکرٹری ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)