آن لائن بدسلوکی: بچوں کا استحصال 

بچوں کے خلاف تشدد میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کا جسمانی اور جذباتی استحصال شامل ہے جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اس طرح کے حملوں کے مساوی خطرات لاحق ہیں۔ اس سے قبل بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں بنیادی مجرم عام طور پر قریبی ساتھی اور رشتہ دار ہوتے تھے لیکن انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ‘ یہ خطرہ زیادہ منظم اور پہلے سے زیادہ خوفناک بھی ہو گیا ہے۔پاکستان میں بچوں کو درپیش بہت سے خطرات میں سے ایک خطرہ ”آن لائن جنسی استحصال“ ہے۔ انٹرنیٹ تک آسان رسائی اور سوشل میڈیا سائٹس سمیت ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی وجہ سے بچے زیادہ تعداد میں نشانہ بن رہے ہیں جو نظام میں موجود کمزوری کی نشاندہی کر رہا ہے۔ سال دوہزاربائیس میں دعا زہرہ نامی بچی کا معاملہ سامنے آیا جس نے پب جی جیسے مقبول اور بظاہر بے ضرر ویڈیو گیمز میں بلٹ ان چیٹ فیچرز کی وجہ سے استحصال کے خطرے کو اجاگر کیا اور یہ موضوع قومی سطح پر زیربحث آیا لیکن بہت جلد اِس خطرے کو بھلا دیا گیا۔ دعا زہرہ کی بازیابی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اس کے والدین کی مسلسل کوششوں اور سوشل میڈیا پر عوامی دباؤ کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ لاپتہ بچوں کی بازیابی میں مہارت رکھنے والی غیر منافع بخش تنظیم ”روشنی ہیلپ لائن“ نے انکشاف کیا ہے کہ بازیاب کرائے گئے کئی بچوں کو منظم جرائم پیشہ افراد نے آن لائن چیٹ پلیٹ فارمز اور دیگر ویب سائٹس کے ذریعے نشانہ بنایا۔پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کے واقعات کوئی نئی بات نہیں تاہم حال ہی میں‘ اس طرح کے واقعات میں غیرمعمولی طور پر اضافہ ہوا ہے اور منظم نیٹ ورکس کے اس میں ملوث ہونے کے پریشان کن واقعات سامنے آئے ہیں۔ ملک میں کچھ علاقے ایسے ہیں‘جہاں بچوں کے ساتھ بدسلوکی ایک عام بات سمجھی جاتی ہے۔ ”ساحل“ نامی غیر سرکاری تنظیم نے سال دوہزاربائیس میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے 3852 واقعات فہرست کئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی یہ تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ آن لائن بدسلوکی اور استحصال کا معاملہ عمومی جرائم سے بالکل مختلف‘ پریشان کن اور منظم ہے۔ انٹرنیٹ تک بڑھتی ہوئی رسائی اور تیزی سے ترقی پذیر ٹیکنالوجیز بچوں کے شکاریوں کو خفیہ طور پر شناخت کرنے اور نشانہ بنانے کے لئے جدید ترین اوزار فراہم کرتی ہیں۔ اس مسئلے کا مکمل خاتمہ نہ صرف ایک سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ ایک بین الاقوامی ضرورت بھی ہے جس پر پاکستان کو قابو پانا چاہئے اگرچہ پاکستان نے بچوں کے تحفظ سے متعلق متعدد بین الاقوامی پروٹوکولز کی توثیق کر رکھی ہے‘ جن میں بچوں کی فروخت‘ جسم فروشی اور چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق کنونشن کا اختیاری پروٹوکول بھی شامل ہے اور پاکستان بچوں کے حقوق سے متعلق عالمی کنونشن کا دستخط کنندہ بھی ہے لیکن اِن اْبھرتے اور بڑھتے ہوئے خطرات سے بچوں کو بچانے کے لئے خاطرخواہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ قومی اور صوبائی قوانین میں ابہام اور کمزور نفاذ خاص طور پر پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لئے خطرہ ہیں۔ غربت‘ شعور اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے بچے پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں اور والدین کی ناکافی نگرانی بھی بچوں کے لئے خطرات کو کئی گنا بڑھا رہی ہے۔بچوں کے ساتھ بدسلوکی پر مواد کی تشہیر اور ویب سائٹس کی اطلاع دینے کے لئے وسیع پیمانے پر آگاہی کے ساتھ قومی ٹول فری ہاٹ لائن کے قیام سے بچوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں سے متعلق ہم اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کریں اور متاثرہ بچوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے گریز کریں تاکہ معصوم اور کمزور بچے تنہائی کا شکار نہ ہوں کیونکہ ان کے ساتھ بدسلوکی جاری رہے اور اْنہیں خاطرخواہ تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ متاثرہ بچوں کی بازیابی اور بحالی کے لئے نفسیاتی جذباتی سپورٹ نیٹ ورک اور خدمات کے ساتھ متاثرہ بچوں کے نکتہ نظر سے حالات کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس طرح کے مسائل پر قومی سطح پر بحث کو فروغ دینا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ والدین‘ عوام کے منتخب نمائندوں‘ سول سوسائٹی اور ٹیک کمپنیوں کے درمیان تعاون کا فروغ‘ بچوں کی مؤثر وکالت اور اْن کے خلاف جرائم کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔ قوانین کو مضبوط بنانے‘ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے اور معاشرتی روئیوں کو تبدیل کرکے‘ ہم اپنے بچوں کی کماحقہ حفاظت کرسکتے ہیں اور ان کے لئے محفوظ آن لائن ماحول کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر لاریب کیانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)