بڑی غلطی

بنگلہ دیش کی حکومت نے گھریلو صارفین کے لئے ’شمسی توانائی کی تنصیبات‘ کرنے کے لئے مراعات کا اعلان کیا ہے اور حکومت ایسی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ شمسی توانائی ماحول دوست اور قابل بھروسہ ذریعہ ہے‘گھریلو صارفین یعنی چھوٹے پیمانے پر شمسی توانائی کی تنصیب میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ شمسی توانائی کی تنصیب سے حکومت پر بجلی کی پیداوار اور اِس کے ترسیلی نظام کو فعال رکھنے پر اخراجات میں کمی آتی ہے‘ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ‘ گھریلو صارفین کو کم سود اور آسان شرائط پر قرضے اور سولر ہوم سسٹم (ایس ایچ ایس) کی پیشگی لاگت کم کرنے کے لئے سبسڈی اور نیٹ میٹرنگ کے حصول میں آسانیاں فراہم کر کے شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ رہائشی شمسی منصوبوں کے لئے مالی مدد فراہم کرنے کے لئے گرین انرجی فنڈز قائم کیا جاتا ہے‘ مائیکرو فنانس پروگرامز‘ آر اینڈ ڈی منصوبوں کے لئے فنڈز کی دستیابی کا مقصد گھریلو شمسی ٹیکنالوجی کو بہتر بنانا بھی ہوتا ہے۔ یوٹیلٹی کنکشن حاصل کرنے کے لئے اب نئی عمارتوں کو اپنے ڈیزائن میں شمسی پینل شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ دنیا زیادہ سے زیادہ شمسی توانائی کی طرف متوجہ ہو رہی ہے اور بالخصوص دیہی علاقوں میں شمسی توانائی کو فروغ دیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں صورتحال مخالف سمت میں جا رہی ہے؟حال ہی میں بھارت کے وزیر خزانہ نے اپنے عبوری بجٹ2024-25ء کا اعلان کیا جس میں ایک کروڑ گھرانوں کو شمسی توانائی کے ذریعے 300یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ حکومت ہند مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس پالیسی پر عمل کر رہی ہے: تصور کریں‘ نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت (ایم این آر ای) اسکیم کے تحت گھریلو صارفین کے لئے شمسی پینل پر چالیس فیصد تک سبسڈی دے رہی ہے۔ گھریلو سطح پر شمسی نظام کی تنصیب کے لئے ون ٹائم کیپیٹل سبسڈی‘ نیٹ میٹرنگ‘ ٹیکس چھوٹ‘ پیداوار پر مبنی مراعات‘ بنا سود قرضے اور ان قرضوں پر ٹیکسوں کی چھوٹ وقت کی ضرورت ہے۔ شمسی توانائی پیدا کرنے والے گھر کے مالکان اضافی آمدنی کے لئے قابل تجدید توانائی سرٹیفکیٹ (آر ای سی) حاصل کر سکتے ہیں۔ گھریلو شمسی منصوبوں‘کمیونٹی شمسی پروگراموں اور ریاستی قابل تجدید خریداری کی ذمہ داریوں کے لئے فنڈز جمع کرنے کے لئے شمسی بانڈز کا اجرأ کیا جا سکتا ہے۔ شمسی توانائی کی خریداری کے معاہدے (پی پی اے)‘ پہلے سے طے شدہ نرخوں پر شمسی توانائی خریدنے کے طویل مدتی معاہدے اور گھریلو صارفین کے لئے مالی استحکام یقینی بنانا اِن مراعات میں شامل ہے۔ شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کو بیٹری سٹوریج کے ذریعے ذخیرہ کیا جاتا ہے جس کے لئے الگ سے مالی ترغیبات کی فراہمی ہونی چاہئے۔ شمسی توانائی میں سرمایہ کاری سے بالواسطہ طور پر گھریلو صارفین کو فائدہ پہنچتا ہے۔ نئی تعمیرات میں لازمی شمسی تنصیبات کو اصول بنانا چاہئے اور اِس سے متعلق قواعد و ضوابط وضع کئے جانے ضروری ہیں۔ پاکستان کو دیگر ممالک کے تجربات اور حکمت عملیوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جہاں شمسی توانائی کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اِن میں افغانستان‘ ایتھوپیا‘ گھانا‘ میانمار‘ روانڈا‘ نیپال‘ بولیویا‘ زیمبیا‘ کیمرون‘ سوڈان‘ سینیگال‘ ازبکستان‘ ہیٹی‘ نکارا گوا‘ لیبیا‘ ملاوی‘ بوٹسوانا‘ بھوٹان‘ فجی‘ پاناما‘ آذربائیجان‘ آرمینیا‘ اردن‘ ایل سلواڈور‘ چین‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ برازیل‘ میکسیکو‘ مراکش‘ کولمبیا‘ ویت نام‘ تیونس‘ یوراگوئے‘ پیرو‘ فلپائن‘ ارجنٹائن‘ کینیا‘ جنوبی کوریا‘ ترکی‘ چلی‘ مصر‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا‘ اسرائیل‘ تھائی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ فرانس‘ اسپین‘ اٹلی‘ سویڈن‘ سنگاپور‘ آئرلینڈ‘ پولینڈ‘ ڈنمارک اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ اِن تمام حکومتوں کے ذہن میں تین چیزیں ہیں: توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانا‘ قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا اور کاربن کا اخراج کم کرنا۔ حکومت پاکستان کو بھی شمسی توانائی کے زیادہ سے زیادہ سے استفادے کی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے تاکہ اسے گھریلوصارفین کے لئے زیادہ قابل رسائی اور پرکشش بنایا جاسکے۔تین سوالات: کیا حکومت پاکستان شمسی توانائی کے لئے قومی پالیسی کا اعلان کرنے والی ہے؟ وہ کون سے حقیقی عوامل ہیں جو حکومت پاکستان کو دیگر ممالک سے متضاد راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟ کیا حکومت پاکستان کو ایک بالکل مختلف حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)