مصنوعی ذہانت کا عروج

تحقیق و ترقی جاری ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں پیش رفت ہوئی ہے‘ یہ امید اور ناامیدی کی دنیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی تیزرفتار ترقی کے باوجود اس سے جڑی توقعات اور وعدے پورے نہیں ہو رہے۔ اپریل میں میٹا کے لاما تھری جنریٹیو ماڈل کی ریلیز ہوئی‘ جو اوپن سورس ہونے کی وجہ سے قابل ذکر ہے۔ چند روز قبل گوگل نے اپنی گوگل آئی یعنی ڈویلپر کانفرنس میں پراجیکٹ ایسٹرا اور جیمنی ون پوائنٹ فائیو جنریٹیو اے آئی (جین اے آئی) ماڈلز کی نمائش کی تھی اور جون میں ایپل کی سال دوہزارچوبیس کے ورلڈ وائیڈ ڈویلپرز کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں کہ موبائل اور ڈیسک ٹاپ آپریٹنگ سسٹمز کے لئے اپ ڈیٹس اور نئی خصوصیات کے ساتھ ساتھ دیگر پروڈکٹس کا اعلان کیا جائے گا اگرچہ بڑی اور چھوٹی ٹیک کمپنیاں ایک کے بعد ایک مصنوعی ذہانت سے لیس مصنوعات تیار کر رہی ہیں اور وہ ایک دوسرے کے تجربات اور تحقیق سے فائدہ بھی اٹھا رہی ہیں لیکن ایپل اب تک خاموش ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی اوپن اے آئی کی جانب سے جی پی ٹی فور او جین نامی اے آئی ماڈل کی ریلیز ’او‘ کا مطلب اومنی (یعنی مختصر) ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ نہ صرف متن کو ان پٹ اور آؤٹ پٹ کرسکتا ہے‘ جیسا کہ پچھلے ماڈلز بلکہ تصاویر اور آڈیو کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا 
ہے اور انہیں حسب خواہش و طلب تیار کرسکے گا۔ اس کوشش کے تعارف (ڈیمو) میں دکھایا گیا کہ صارفین اس سے بات چیت کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ مزیدار یہ دیکھنا ہے کہ ”جی پی ٹی فور او“ صارفین سے ’بات چیت‘ کر سکے گا۔ اس بات چیت کو زیادہ حقیقی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ”جی پی ٹی فور او“ کا ڈیفالٹ موڈ زیادہ پرکشش ہے اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ اوپن اے آئی کے ”جی پی ٹی فور او“ کی ڈیمو ویڈیوز آن لائن ریلیز بھی ہوئی ہیں۔ جس میں صارفین کو سوالات کے جوابات دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ”جی پی ٹی فور او“ آن اسکرین تشریحات اور سرگرمیوں پر بات چیت کرنے اور جواب دینے کے قابل ہے اور قدم بہ قدم‘ ایک اچھے استاد کی طرح جوابات دیتا ہے یا کسی مسئلے کے حل کے لئے رہنمائی کرتا ہے اور ان کا استعمال شعبہئ تعلیم میں زیادہ ہونے کی امید ہے۔ ایک ماہر تعلیم کے نقطہ نظر سے‘ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی سب سے زیادہ اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے جوابات حاصل کئے جا سکتے ہیں اور یہ سیکھنے یعنی تعلیم کے مراحل کو آسان بناتی ہے۔ ڈوولنگو دنیا کا سب سے بڑا زبان سیکھنے کا پلیٹ فارم ہے جو مفت ہے اور ایک ایپ کی شکل میں آتا ہے۔ ”جی پی ٹی فور او“ کے اجرأ کے بعد‘ ایک کاروباری چینل پر انٹرویو میں‘ ڈوولنگو کے سی ای او لوئس وان آہن نے بتایا کہ کس طرح ڈولنگو چیٹ کی خصوصیت کو تبدیل کرنے اور اسے ”جی پی ٹی فور او“ کے ساتھ چیٹ سے تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاہم‘ مصنوعی ذہانت تمام شعبوں میں تعلیمی خدمات فراہم نہیں کر سکتا اور اس کا زیادہ تر استعمال چوری میں ہو رہا ہے اگرچہ متعدد جین اے آئی ماڈل فی الحال چند درجن زبانوں میں کام کرتے ہیں لیکن بنیادی زبان جس کے لئے وہ تیار کئے گئے ہیں وہ انگریزی ہے‘ جو انٹرنیٹ کی زبان بن چکی ہے۔ یہ ہر اس صارف کے لئے ٹھیک ہے جسے انگریزی آتی ہے اور جو یہ زبان بول سکتا ہے لیکن باقی سب کے بارے میں کیا؟ اعداد و شمار کے لحاظ سے مختلف رپورٹس میں اردو کو دنیا بھر میں دسویں یا گیارہویں بڑی بولی کے طور پر جانا جاتا ہے اور مصنوعی ذہانت میں تاحال اردو کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ انگریزی زبان پر انحصار سے سرمایہ دارانہ نظام کو مزید ترقی و اہمیت ملے گی۔ ”جی پی ٹی فور او“ 
پروجیکٹ ایسٹرا‘ جیمنی اور دیگر جیسے ملٹی ماڈل جین اے آئی ماڈلز شعبہئ تعلیم میں تبدیلی کی صلاحیت رکھتے ہیں جو سیکھنے سکھانے کے مراحل میں انقلاب برپا کر سکتی ہے اور اس کے استعمال سے تعلیم حاصل کرنے کا عمل زیادہ دلچسپ اور قابل رسائی بن جائے گا تاہم‘ ان جدید ٹولز تک ہر کسی کو رسائی حاصل نہیں اور یہ عدم مساوات ایک اہم چیلنج کو اجاگر کر رہی ہے۔ پاکستان میں‘ جہاں معاشی رکاوٹیں اور زبان کی رکاوٹیں موجود ہیں‘ مصنوعی ذہانت پر مبنی ان ٹیکنالوجیز سے فائدہ اٹھانے والوں اور فائدہ نہ اٹھانے والوں کے درمیان فرق مزید بڑھ سکتا ہے۔ پالیسی سازوں‘ ماہرین تعلیم اور ٹیکنالوجی ڈویلپرز کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس خلاء کو پر کریں۔ نجی شعبے میں کچھ گروپ کچھ ضروری کاموں پر کام کر رہے ہیں لیکن اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ڈیجیٹل تقسیم ختم کرنے کے لئے فعال طور پر کام کرکے‘ ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ تمام طلبہ‘ سماجی و اقتصادی پس منظر سے قطع نظر‘ اے آئی کی پیش کردہ تعلیمی ترقی سے فائدہ اٹھائیں۔ صرف تبھی پاکستان میں تمام طالب علموں کے لئے روشن اور زیادہ مساوی مستقبل تخلیق ہو سکے گا اور اس تکنیکی انقلاب کی طاقت کو صحیح معنوں میں بروئے کار لایا جا سکے گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ ابوالحسن امام)