گھریلو ملازمین کی قدرواہمیت

پاکستان میں رہنے کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کم اجرت پر ملازمین مل جاتے ہیں۔ یہ سستے مزدور ہر شعبے میں دستیاب ہیں تاہم اِن میں سب سے اہم اور خطرات سے دوچار گھریلو ملازمین کو قرار دیا جاتا ہے۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ شہروں میں رہنے والے خاندان روزمرہ کے کام کاج جیسا کہ کھانا پکانے‘ صفائی‘ استری‘ بچوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال جیسے کاموں کے لئے ملازمین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں تقریباً پچاسی لاکھ گھریلو ملازمین ہیں اگرچہ گھریلو ملازمین محنت کرتے ہیں لیکن ہم ان کے کام کی مناسب قیمت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں گھریلو کام کاج کی قدر انتہائی کم ہے اور زیادہ تر مزدوروں کو کم از کم اجرت سے کم اجرت دی جاتی ہے۔ یہ پورا شعبہ بڑی حد تک غیر رسمی ہے‘ جس میں مزدور سخت جسمانی مشقت والے کام کاج بھی زبانی معاہدوں کے تحت کرتے ہیں۔ ایک گھریلو ملازم کا دن لمبا ہوتا ہے وہ گھنٹوں بلا وقفہ کئے کام کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گھریلو ملازمین کی اکثریت جسمانی طور پر لاغر و کمزور ہوتی ہے اور انہیں صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ زبانی کلامی اذیت و بدسلوکی سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں گھریلو ملازمین پر اس حد تک تشدد کیا گیا کہ وہ جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ گھریلو ملازمین کم تنخواہوں کے عوض کام کاج پر رضامند ہو جاتے ہیں اور اکثر پیشگی تنخواہوں کا مطالبہ کرتے ہیں یا آجروں سے قرض لے لیتے ہیں‘ جس کے بعد ان کی حیثیت غلام کی طرح ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر ملازمین اپنے آجروں کی خیرات پر بھی بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اور اکثر تہواروں یعنی رمضان المبارک یا عیدین جیسے خاص مواقع کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ دونوں عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صرف معاوضہ یا تنخواہ ان کی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتی۔ گھریلو کام کاج کرنے والوں کو کم اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟ کسی ملازم کا معاوضہ بھی صنفی پہلو رکھتا ہے۔ ہم خواتین کے مقابلے میں مردوں کو ایک ہی طرح کے کام کاج کے لئے زیادہ معاوضہ دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں‘ اکثر وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے جیسے وہ بنیادی کمانے والے ہیں یا کام کا بہتر معیار انجام دیتے ہیں یا کام کی اخلاقیات کو مضبوط بناتے ہیں۔ اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ ایک مرد کی بلا تعطل کام کی اخلاقیات گھر میں اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے والی عورت کی محنت پر منحصر ہوسکتی ہے۔ خواتین کی آمدنی کو گھریلو اخراجات پورا کرنے کے لئے اضافی آمدنی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس بات کو تسلیم کئے بغیر کہ وہ سنگل فیملی کی کفیل ہونے کے ناطے گھر چلا رہی ہوتی ہیں۔ اس بات کو بھی بہت ہی کم تسلیم کیا جاتا ہے کہ گھریلو کام کاج کے لئے ایک خاص سطح کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن زیادہ ہنر مند یا تجربہ کار کارکنوں کے لئے بہت ہی کم اضافی معاوضہ دیا جاتا ہے۔ زندگی بسر کرنے کی لاگت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ایک بحرانی حالت سے گزر رہی ہے جس سے غریب یعنی کم آمدنی رکھنے والے طبقات نسبتاً زیادہ متاثر ہیں۔ بجلی‘ گیس اور اشیائے خوردونوش کے بلوں میں اضافہ کم آمدنی رکھنے والوں کے لئے اضافی پریشانی کا باعث ہیں۔ مراعات یافتہ لوگ اپنی بچت میں کٹوتی کر سکتے ہیں یا معمولی فرق کو کم کر سکتے ہیں لیکن غریب ایسا نہیں کر سکتے۔ لوگ اپنے بچوں کے لئے بہتر زندگی کا تصور نہیں کرسکتے ہیں جب کھانے پینے جیسی ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہو رہی ہوں۔ وقت ہے کہ گھریلو کام کاج کرنے والوں کی خاطرخواہ قدر کی جائے اور انہیں محنت کا خاطرخواہ معاوضہ دیا جائے۔ یہ احترام انسانیت اور حقوق العباد کا عملی اظہار بھی ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہرہ نورین بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)