بائیو ٹیکنالوجی سائنس کا دلچسپ اور حیرت انگیز شعبہ ہے جو خاص طور پر 1950ء کی دہائی میں ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کرتا رہا ہے۔ بائیوٹیکنالوجی میں مخصوص استعمال کے لئے مصنوعات بنانے کے لئے زندہ حیاتیات یا ان کے ڈیریویٹوز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اس شعبے میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی ایپلی کیشنز متعدد شعبوں میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن زراعت اُور صحت پر اِس کے اثرات خاص طور پر گہرے مرتب ہوتے ہیں۔ جب میں سال دوہزار سے دوہزاردو کے دوران وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا تو پاکستان میں اِس شعبے کو بہت فروغ دیا گیا۔ نیشنل کمیشن آف بائیو ٹیکنالوجی قائم کیا گیا‘ معروف بائیو ٹیکنالوجیسٹ ڈاکٹر انور نسیم کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ کمیشن کے زیر اہتمام متعدد منصوبوں کی مالی اعانت کی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان سے بائیو ٹیکنالوجی سے متعلق شعبوں میں سائنسی اشاعتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیاتی انجینئرنگ (این آئی بی جی ای) اور نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ فار ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی (این آئی اے بی) فیصل آباد جیسے مراکز قائم ہوئے جنہوں نے بائیو ٹیکنالوجی ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے کپاس‘ گندم اور دیگر فصلوں کی بہتر اقسام کی ترقی میں قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔ آئیے اس انتہائی اہم میدان کے کچھ پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈی این اے یا ڈیاکسیرائبو نیوکلیک ایسڈ وہ مالیکیول ہے جو زندگی کے لئے جینیاتی ہدایات لے جاتا ہے۔ تصور کریں کہ یہ ایک لمبی‘ موڑی ہوئی سیڑھی ہے جو چار قسم کے بلڈنگ بلاکس (مالیکیولز) پر مشتمل ہے‘ جسے حروف کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ حروف الفاظ اور جملے تشکیل دیتے ہیں جو ہمارے خلیوں کو بتاتے ہیں کہ کس طرح کام کرنا ہے‘ بڑھنا ہے اور دوبارہ پیدا کرنا ہے۔ انسانی ڈی این اے میں تقریبا تین ارب ”حروف“ موجود ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک باورچی کو ترکیب ڈش بنانے کا طریقہ بتاتی ہے‘ اسی طرح ڈی این اے ان تمام پروٹین اور ڈھانچوں کو بنانے کا خاکہ فراہم کرتا ہے جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہمارے جسم کے تقریبا ہر خلیے میں پایا جاتا ہے اور والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے‘ جو ہمارے بالوں کی رنگت سے لے کر کچھ بیماریوں کے خطرے کا تعین کرتا ہے۔ بنیادی طور پر‘ ڈی این اے حیاتیاتی کوڈ ہے جو ہر زندہ چیز کو منفرد بناتا ہے اور زندگی کو جاری رکھتا ہے۔ اِسی طرح جینیاتی انجینئرنگ زرعی بائیو ٹیکنالوجی کا ایک سنگ بنیاد ہے‘ جس میں مطلوبہ خصوصیات کو حاصل کرنے کے لئے کسی جاندار کے ڈی این اے میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ اس تکنیک نے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ (جی ایم) فصلوں کا حصول ممکن بنایا ہے‘ جس کے لاتعداد فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر‘ بیسیلس تھورنگینسیس (بی ٹی) مکئی اور کپاس کو بیکٹیریا سے بچاتا ہے اُور یہ فصل کے لئے مہلک کیڑوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے جس سے فصل کے نقصانات کم ہوتے ہیں اُور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک اور مثال کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی جی ایم فصلوں کی ہے‘ جیسے وائرس کے خلاف مزاحمت کرنے والا پپیتا‘ جس نے ہوائی میں پپیتے کی پیداوار کو نمایاں طور پر تحفظ دیا۔ اسی طرح‘ راؤنڈ اپ ریڈی سویابین جیسی جڑی بوٹیوں کو برداشت کرنے والی فصلوں کو مخصوص جڑی بوٹیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے‘ جس سے کسانوں کو فصلوں کو نقصان پہنچائے بغیر جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ملتی ہے اُور اِس سے موثر جڑی بوٹیوں کا بچاؤ کرنے میں بھی مدد ملتی ہے جبکہ مزدوری کی لاگت میں کمی آتی ہے۔ مزید برآں‘ بائیو ٹیکنالوجی فصلوں کی غذائی پروفائل کو بڑھانے کے قابل بناتی ہے۔ یہی ٹیکنالوجی پودوں کی تیزی سے افزائش کرتی ہے جس میں ’ٹشو کلچر‘ شامل ہے۔ اِس عمل میں پودوں کے خلیات‘ ٹشوز‘ یا اعضا کو جراثیم کش بنا کر کاشت کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح بائیو فرٹیلائزر اور بائیو کیڑے مار ادویات قدرتی ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں اور مٹی کی زرخیزی بڑھانے اور کیڑوں کو کنٹرول کرنے کے لئے حیاتیاتی عمل کا استعمال کرتی ہیں۔ پودوں‘ بیکٹیریا اور بعض معدنیات جیسے قدرتی مواد سے حاصل کردہ بائیو کیڑے مار ادویات کیمیائی حشرہ کش دواؤں کا پائیدار متبادل ہیں۔بیسیلس تھورنگینسس (بی ٹی) ایک وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا بائیو پیسٹیسائڈ ہے جو مخصوص کیڑوں کے لئے نقصان دہ زہریلے مادے پیدا کرتا ہے لیکن انسانوں اور فائدہ مند کیڑوں کے لئے محفوظ ہے۔ دیگر مثالوں میں نیم کے درخت سے نکالا جانے والا نیم کا تیل‘ جس میں وسیع پیمانے پر کیڑے مار خصوصیات ہوتی ہیں اور ٹرائیکوڈرما‘ مٹی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال ہونے والا ایک فنگس شامل ہے۔صحت کے شعبے میں بائیو ٹیکنالوجی کی ایپلی کیشنز جینیاتی انجینئرنگ کے شعبے کو جینیاتی خرابیوں کو درست کرنے اور جدید علاج کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ جین تھراپی میں بیماری کے علاج یا روک تھام شامل ہوتا ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کی ایک شاخ اسٹیم سیل تھراپی ہے جس کا مقصد تباہ شدہ ٹشوز اور اعضا کو بحال کرنا ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی پیوند کاری کے لئے بائیو انجینئرڈ اعضا اور ٹشوز کی تخلیق کو ممکن بناتی ہے اگرچہ زراعت اور صحت میں بائیو ٹیکنالوجی کی ایپلی کیشنز بے شمار فوائد پیش کرتی ہیں لیکن وہ اخلاقی خدشات کو بھی جنم دیتی ہیں۔ جی ایم فصلوں کے حفاظتی اور ماحولیاتی اثرات متنازعہ ہیں‘ جن میں الرجی‘ جنگلی جین کے بہاؤ اور مزاحمتی کیڑوں اور جڑی بوٹیوں کی نشوونما جیسے امکانات شامل ہیں۔ انسانوں میں سی آر آئی ایس پی آر اور دیگر جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجیز کا استعمال جینیاتی تبدیلیوں‘ ممکنہ غیر متوقع نتائج اور ڈیزائنر بچوں کے امکان کے بارے میں اخلاقی نکات اٹھاتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ناقابل فراموش شہادت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام