گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بھاری قرضے لے رہا ہے جس کی وجہ سے بحرانوں کا ایک سلسلہ جاری ہے‘ قرضوں کے اِس بحران کی وجہ سے ترقی اور معاشی شرح نمو کا بحران پیدا ہوا ہے۔ یہ تینوں بحران مل کر تقسیم کے بحران کو جنم دے رہے ہیں‘ جس نے آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم میں اضافہ کیا ہے اور اس طرح مزید غربت کو جنم دیا ہے۔ اس سب کی وجہ سے ’سماجی بحران‘ پیدا ہوا ہے جس میں چوری‘ ڈکیتی‘ اغوا برائے تاوان‘ قتل وغیرہ میں اضافہ دیکھا گیا جو سیاسی بحران بھی ہے۔ بحران کا سبب یہ ہے کہ قومی وسائل کا بڑا حصہ معیشت کو قرضوں کی ادائیگی اور آئی ایم ایف کی شرائط پر خرچ ہو رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں دیکھا گیا کہ پانچ ہزار صنعتی یونٹ بند ہو گئے جس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے۔ پیداوار‘ روزگار اور کاروباری منافع میں کمی نے معاشی صورتحال کو مزید خراب کر دیا لیکن موجودہ بحران اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے‘ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ پچاس لاکھ ملازمین بے روزگار ہو چکے ہیں۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کا معیشت پر مجموعی اثر 1990ء کی دہائی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تخمینے کے مطابق 1990ء کی دہائی میں غربت کی سطح بڑھ کر آبادی کا پچاس فیصد ہوگئی جبکہ دیہی سندھ میں یہ 85فیصد تھی لیکن اس بار یہ بہت بدتر ہے اور غذائی تحفظ پر بھی اس کے مضمرات نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ غذائی افراط زر میں اضافہ بہت زیادہ ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں ہو رہیں اور اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے مطالبے کی وجہ سے قیمتوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ہماری قومی برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا یا تجارتی توازن (بی او ٹی) خسارے کو روکا نہیں جا رہا۔ دوسرا یہ کہ آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں اضافے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے جس سے سرمایہ کاری‘ پیداوار‘ روزگار میں اضافے اور غربت میں اضافے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قرض پر سود کی ادائیگی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے لیکن قیمتوں (سی پی آئی) میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ قدر میں کمی اور شرح سود دونوں قیمتوں اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے نتیجے میں سال دوہزاراٹھارہ سے دوہزارتیئس تک غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک کی نام نہاد خودمختار حیثیت کی وجہ سے قرض نہ لینے کی وجہ سے ملکی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ اس کے علاؤہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ایف بی آر کی جانب سے جمع کئے جانے والے کل ٹیکسوں کا 90فیصد کمرشل بینکوں کو سود کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بجلی‘ گیس اور پیٹرول پر ٹیرف میں اضافے جیسی آئی ایم ایف کی شرائط بھی پیداواری لاگت اور قیمتوں میں اضافے کا باعث ہیں‘ جس سے صنعت ناقابل عمل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد ہم نقل و حمل کے اخراجات اور تھرمل بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ذریعے افراط زر کا ثانوی دور دیکھتے ہیں۔ کیا ان سب کو معاشی اصلاحات کہا جا سکتا ہے؟ کیا آئی ایم ایف اور ہمارے اکنامک منیجرز معیشت کو پہنچنے والی تباہی سے مکمل طور پر بے خبر ہیں؟آئی ایم ایف کے کفایت شعاری پروگرام کے کھوکھلے پن کا اندازہ امیر پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو غیر معمولی ادائیگیوں سے لگایا جاسکتا ہے لیکن پاکستانی آبادی کو ان کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔ مذکورہ پروگرام نچلے متوسط طبقے اور غریب پاکستانیوں کے پسینے اور خون کو نچوڑنے کے مترادف ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے قومی آمدنی بڑھانے کی حکمت عملی جس میں یوٹیلیٹیز اور جی ایس ٹی پر ٹیرف بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے‘ ٹیکس ڈھانچے کو رجعت پسند بناتا ہے اگرچہ پاکستان میں آئی ایم ایف کی آمدنی بالواسطہ ٹیکسوں کی وجہ سے آبادی کے متوسط‘ نچلے اور غریب طبقے پر مرکوز ہے لیکن اخراجات کی طرف سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے امیر طبقہ اور غیر ملکی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر شاہدہ وزارت۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اس کا مقصد ارکان پارلیمنٹ‘ ججز‘ بیوروکریٹس‘ غیر ملکی کنسلٹنٹس‘ اسٹیٹ بینک کے سربراہان‘ کمرشل بینکوں کے صدور اور سینئر افسران کے معاوضوں‘ مراعات اور مراعات میں اضافہ اور بیرون ملک ریٹائرڈ سویلین اور غیر سویلین بیوروکریٹس کو پنشن کی ادائیگی اور بیرون ملک مقیم غیر ملکی اور پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہے اگرچہ امیر طبقے حکومت کی اخراجات کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں لیکن اخراجات میں کٹوتی کا سب سے بڑا شکار متوسط‘ نچلے اور غریب طبقے ہیں جس کی وجہ صحت‘ تعلیم اور غریبوں کے اخراجات میں کمی ہے۔ کیا معاشی اصلاحات کا مطلب یہ ہے کہ کم آمدنی والے طبقات یعنی غریبوں سے زیادہ وصولیاں کی جائیں اور انہیں امیروں کو منتقل کر دیا جائے؟ریکوڈک میں پاکستان کو حصص دار میں تبدیل کیا جا رہا ہے‘ جہاں اس وقت پاکستان اور بیرک گولڈ کے پاس بالترتیب پچاس پچاس فیصد حصص ہیں۔ یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت گزشتہ تیس سالوں سے معیشت پر آئی ایم ایف پالیسیوں کے اثرات کا جائزہ کیوں نہیں لینا چاہتی اور بہتر متبادل ترجیحی آپشن کیوں بروئے کار نہیں لائے جا رہے؟ کہا جاتا ہے کہ ہم ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لے رہے ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے کیونکہ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی قرضے دوہزاراُنیس تک قابل واپسی یعنی پائیدار تھے لیکن اس کے بعد سے ناقابل برداشت ہو گئے ہیں اور اگر پاکستان مزید غیر ملکی قرضے لے گا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے میں کئی ایک خامیاں ہیں جن میں شامل ہے کہ اب ہمارے پاس جو بھی متبادل دستیاب ہیں وہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام پر دستخط کرنے کے بعد دستیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اس کے بعد آئی ایم ایف ہماری قومی معاشی پالیسیوں کا فیصلہ کرے گا۔ پاکستان کو حقیقی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے جو مقامی پاکستانی ماہرین اقتصادیات کی طرف سے تیار کردہ ہوں اور انہیں پوری توجہ سے نافذ کیا جائے۔ ہمیں قرضوں کی واپسی کے انتظام کی حکمت عملی وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ہم اپنی ترقی اور آبادی کی بنیادی ضروریات کو قربان کئے بغیر قرضوں کی ادائیگی کرنے کے قابل ہوں۔ہمیں اپنی معیشت کو ایران‘ افغانستان‘ چین‘ روس اور اس سے باہر کے علاقائی ممالک کے ساتھ مربوط کرکے پاکستان کے معاشی استحکام کو یقینی اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔