پاکستان کی معیشت برسوں سے دوہرے خسارے جیسے مخمصے سے دوچار ہے کیونکہ کم برآمدات اور محدود براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی وجہ سے ہم غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے باعث مالیاتی عدم توازن کا شکار ہیں تو دوسری طرف حکومتی اخراجات میں کمی نہیں کی جا رہی جسے پورا کرنے کی کوششیں بھی خاطرخواہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہی ہیں اور اِس کے نتیجے میں ملک کو بار بار مالیاتی خسارے کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سال دوہزار تیئس میں یہ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو تاریخ کی بلند ترین سطح ہے اور اِس مقام پر ضروری ہو گیا ہے کہ معاشی بہتری کے لئے ’فوری توجہ‘ دی جائے۔معاشی بہتری کے لئے حکومتی کوششیں گرانقدر ہیں اور اگرچہ کوششیں زیادہ تر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر مرکوز ہیں لیکن مالی خسارہ اور اِس کے دور رس مضمرات کی وجہ سے یکساں توجہ کا متقاضی ہے۔ بھارت‘ ویت نام اور ملائشیا جیسے علاقائی ممالک کے تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پیداواری صلاحیت بڑھانے اور طویل مدتی پائیدار اقتصادی نمو کے حصول کے لئے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔ مذکورہ ممالک کی معاشی پالیسیوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کی کوششیں مرکز اور صوبوں میں مربوط ہونی چاہیئں اور اگر مالیاتی پالیسوں کو مرکزی شکل دی جائے تو اِس سے معاشی اصلاحات کو نمایاں طور پر تقویت مل سکتی ہے۔پاکستان میں قومی مالی خسارے کی وجہ سے حکومت کو اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران‘ کل لئے گئے قرضہ جات قومی آمدنی کا تقریباً 80فیصد تک پہنچ چکے ہیں اور اِس کی وجہ سے حکومت پر قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ ہر سال بڑھ رہا ہے۔ موجودہ بجٹ میں‘ مالی سال دوہزارچوبیس کے لئے تخمینہ اخراجات کا پچاس فیصد سے زیادہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہوگا۔ صوبوں کو واجب الادا حصہ منتقل کرنے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس باقی رہ جانے والے کل وسائل اور اخراجات پورے کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں جنہیں دور کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو مزید قرضے لینے پڑتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک قرضوں کے جال میں پھنس رہا ہے۔ محصولات اور اخراجات کے اِس فرق کو پورا کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے زیادہ قرضے لینے سے لیکویڈیٹی کم رہ جاتی ہے‘ جسے بینک قرض دیتے ہیں۔ نتیجتا‘ مالیاتی شعبے کو اپنی ضروریات پر نظر ثانی اور نرمی اور اپنی خدمات کو زراعت‘ ایس ایم ایز اور سٹارٹ اپس جیسے چھوٹے لیکن اہم شعبوں تک بڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جبکہ یہ انتہائی اہم ہیں۔ مذکورہ شعبے روزگار و برآمدات میں اضافے اور جامع ترقی کے لئے ضروری ہیں لہٰذا‘ اِن شعبوں کی ترقی اپنی جگہ اہم ہے۔ اس کے علاؤہ‘ ان شعبوں کی کم ترقی کی وجہ سے مجموعی رسد کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں درآمدات پر زیادہ انحصار ہونے کے باعث کرنسی کی قدر میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سب افراط زر میں اضافے کا باعث ہیں‘ جس کا جواب پالیسی ریٹ میں اضافہ کرکے دیا جاتا ہے اگرچہ یہ اضافہ عارضی طور پر سرکاری سیکورٹیز میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے لیکن اس سے پیداواری لاگت کے ساتھ حکومت کے لئے قرض لینے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اِس کے نتیجے میں قرضوں کی ادائیگی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے اَفراد اور کاروباری اداروں پر زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ پڑتا ہے اور جس سے مانیٹری پالیسی افراط زر روکنے کی صلاحیت کم مؤثر ہو جاتی ہے۔مالی خسارے کو دور کرنا ممکن ہے جس کے لئے فیصلہ کن سیاسی استحکام اور عملی اقدامات جیسی کاروائی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت انسانی وسائل کی تربیت و ترقی جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے تو اِس سے مسلسل مالی خسارے کو دور کرنا ممکن ہے تاہم ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت بہرحال اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ اسی طرح حکومت کو سبسڈیز کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جن شعبوں میں غیرضروری و غیرترقیاتی سبسڈیز دی جا رہی ہیں اُن پر نظرثانی کی جائے۔ مثال کے طور پر‘ یوریا کھاد پر سبسڈی دی جاتی ہے لیکن اس سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بڑے زمینداروں کو نسبتاً زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس طرح ٹارگٹڈ سبسڈیز سے ہونے والے اخراجات روکنے معاشی بہتری جیسے کثیرالجہتی اہداف کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔حکومت ٹیکس اصلاحات کے ذریعے بھی معاشی بہتری لا سکتی ہے۔ اِس کے لئے ٹیکس بیس کو وسیع کرنا‘ ٹیکس ڈھانچے کو آسان بنانا‘ ٹیکس اخراجات کا ازسرنو جائزہ لینا اور ٹیکس انتظامیہ کو بہتر بنانا ہوگا۔ اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائزیشن اور مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا تجزیات کے استعمال سے معیشت کی ٹیکس وصولی اور دستاویزات بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اگر یہ اقدامات دانشمندی اور مؤثر طریقے سے کر لئے جائیں تو اس سے قومی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وقت کے ساتھ قرضوں پر انحصار بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔ (مضمون نگار ماہر معاشیات ہیں اور اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر منسلک ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ندیم سرور۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ناقابل فراموش شہادت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام