اخراجات کی وبائ

وفاقی بجٹ کی تیاری میں مشغول ہے اور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کیا جائے گا۔ اضافی ٹیکسوں کا نتیجہ مہنگائی میں اضافے کی صورت ظاہر ہوگا۔ اِس وقت ہر پاکستانی خاندان ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو کے ذریعے سرکاری خزانے میں سالانہ اوسطاً ساڑھے تین لاکھ روپے ادا کر رہا ہے‘ اس وقت پاکستانی خاندانوں پر صرف ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ داری عائد ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری نہیںکہ وہ عوام کو جواب دے کہ گزشتہ سال جمع کئے گئے ٹیکسوں کے پیسے کیسے خرچ ہوئے۔ میرا اندازہ ہے کہ آنے والے بجٹ سے فی پاکستانی خاندان پر ایک لاکھ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔جون میں وفاقی وزیر خزانہ و محصولات قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوں گے اور ہمیں بتائیں گے کہ حکومت کا مجموعی محصولات جمع کرنے کا ہدف سولہ کھرب روپے ہوگا۔ اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ سال بہ سال ٹیکس ہدف میں تیس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ تصور کریں کہ سال دوہزاردس میں حکومت نے مجموعی محصولات کی وصولی کا ہدف ڈیڑھ کھرب روپے مقرر کیا تھا۔ یہ چودہ سالوں میں گیارہ گنا یا 973 فیصد اضافہ ہے۔ تصور کریں کہ سال دوہزاردس میں ہر پاکستانی خاندان نے سرکاری خزانے میں اوسطاً چون ہزار روپے ادا کئے۔ تصور کریں کہ آئندہ مالی سال دوہزارچوبیس پچیس تک ہر پاکستانی خاندان کو حکومت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اوسطاً ساڑھے چار لاکھ روپے سالانہ خرچ کرنے پڑیں گے۔ اس ریاضی کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اقوام متحدہ کے 193رکن ممالک میں پاکستان ایسا واحد ملک ہے جس کے عوام کی اکثریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’ٹیکس چور ہیں‘ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ گزشتہ سال ہر پاکستانی خاندان کی جانب سے ٹیکس ادا کیا گیا اور یہ ٹیکس فی خاندان ساڑھے تین لاکھ روپے سالانہ بنتا ہے۔ گزشتہ چودہ سالوں میں ٹیکس وصولی میں 973فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ ٹیکس نہیں بلکہ سرکاری اخراجات ہیں۔ زیادہ ٹیکس عائد کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ سرکاری اخراجات وباءکی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستانی ٹیکس کی مد میں کتنا ادا کرتے ہیں بلکہ یہ سرکاری اخراجات میں فضول خرچی کا نتیجہ ہے۔ ٹیکس ایندھن کی طرح ہیں‘ یہ حکومت کے اخراجات کو گاڑی کی طرح چلاتے ہیں۔ سرکاری اخراجات سے توجہ کو ٹیکسوں پر منتقل کرنے کا مطلب مرض کی علامات دبانے کی کوشش ہے‘ یہاں تک کہ بیماری کا علاج کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔آئندہ نیشنل فنانس ایوارڈ (این ایف اے) ’وفاقی مالیاتی قحط سالی‘ کے لئے ذمہ دار ہوگا۔ جون میں معزز وفاقی وزیر خزانہ و محصولات قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوں گے اور ہمیں بتائیں گے کہ حکومت کا مجموعی محصولات جمع کرنے کا ہدف سولہ کھرب روپے ہے اور اِس سولہ کھرب روپے میں سے چھ کھرب روپے صوبوں میں اور دس کھرب روپے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوگا جس کے بعد وفاقی خزانے میں کچھ بھی نہیں بچے گا‘ وفاقی حکومت کو فنڈ کے لئے 800 ارب روپے ‘ ترقیاتی پروگرام کے لئے 800 ارب روپے‘ گرانٹس کے لئے 1.4 کھرب روپے‘ سبسڈیز کے لئے ایک کھرب روپے‘ دفاع کے لئے 2 کھرب روپے اور پنشن کے لئے ایک کھرب روپے مختص کئے گئے ہیں‘ دریں اثنا‘ وفاقی حکومت کی جانب سے چھ کھرب روپے کی امداد سے صوبائی حکومتوں کے پاس آمدنی بڑھانے کے لئے کوشش نہیں کی جاتی۔ یقینی طور پر‘ جب تک این ایف اے موجود ہے فیڈرل فسکل فیمیم جاری رہے گا اور جب تک اخراجات میں کٹوتی کی بجائے ٹیکسوں میں اضافے پر توجہ مرکوز رہی تو مالیاتی عدم متوازن اور خسارے پر مبنی بجٹ پیش کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)