ڈی ریگولیشن: معاشی فوائد

دوسری جنگ عظیم کے بعد آسٹریلیا بہت زیادہ منظم معیشت تھی۔ اعلیٰ ٹیرف اور درآمدی کنٹرول جیسے تحفظ پسند اقدامات سے مالیاتی شعبے کو انتہائی منظم کر دیا گیا تھا اور حکومت نے زرعی بورڈز کے ذریعے قیمتوں پر کنٹرول کا استعمال کیا۔ اس منظم معاشی کوشش اور ماحول نے مسابقت کو متاثر کیا اور پیداواری صلاحیت محدود ہوئی۔ اِسی سے ملتی جلتی معاشی صورتحال کا پاکستان کو بھی سامنا ہے۔ آسٹریلیا کا معاشی ڈی ریگولیشن کی طرف غیر معمولی سفر 1970ء  کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے‘ یہ مؤثر اور تبدیلی کا عمل رہا ہے۔ ایک ایسا عمل جس پر کئی دہائیوں سے آسٹریلیا کی حکومتوں نے کافی اچھی طرح سے عمل کیا ہے۔ حکام نے اندرونی طور پر ریگولیٹری تبدیلی کا تصور کیا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی کیا ہے۔ بیرونی وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے معاشی سوچ کو فروغ دیا گیا اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے معاشی استحکام کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کچھ اہم ڈی ریگولیشن اقدامات میں آسٹریلوی ڈالر کی قدر میں کمی‘ مالیاتی منڈیوں کو ڈی ریگولیٹ کرنا‘ غیر ملکی سرمائے کے بہاؤ پر کنٹرول ختم کرنا‘ صنعتی تعلقات کو غیر مرکزی بنانا‘ مسابقتی پالیسی کو آگے بڑھانا‘ ٹیکس بیس کو وسیع کرنا اور سرکاری ملکیت کے اداروں کو کارپوریٹائزکرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اِن اصلاحات کا مقصد معاشی آزادی کو بڑھانا‘ نئی بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچنا‘ مسابقتی طرز عمل کو تشکیل دینا اور معاشی لچک بہتر بنانا تھا۔ ڈی ریگولیشن کے اہم شعبوں میں تجارتی رکاوٹیں اور محصولات کم کرکے عالمی تجارت کو بڑھانا اور سرکاری اداروں کے زیر اثر ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبوں کو آزاد بنانا اور پابندیوں کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ آسٹریلیا کی قومی مسابقتی پالیسی (این سی پی) فریم ورک نے مسابقت کے لئے ریگولیٹری رکاوٹوں کو کم کیا‘ سپلائرز کو موثر طریقے سے کام کرنے‘ قیمتیں کم کرنا اور جدت کو رائج کرنے جیسی مضبوط ترغیبات فراہم کیں۔ این سی پی کا ایک اہم جزو قانون سازی کا جائزہ پروگرام تھا۔ اس اصلاحات سے اندازہ لگایا گیا کہ کیا مسابقت پر ریگولیٹری پابندیاں عوامی مفاد میں ہیں۔ اس میں پیشہ ورانہ لائسنسنگ‘ زرعی منڈیوں‘ انشورنس اور نقل و حمل سمیت معیشت کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کیا گیا۔ مسابقتی فریم ورک پاکستانی معیشت کی اصلاح میں گمشدہ کڑی ہے۔ اس بات پر اکثر زور دیا جاتا ہے کہ چھبیس ملین آسٹریلوی باشندوں کے لئے ڈی ریگولیشن سود مند رہا۔ مسابقت نے خدمات کو بہتر بنایا‘ طویل مدتی قیمتوں کا استحکام پیدا کیا ہے اور صارفین کو بہتر انتخاب کا موقع ملا۔ مزدوروں کی اجرت بہت زیادہ رہی اور شہریوں کو دولت و معیار زندگی میں اضافے جیسے خوشگوار تجربات کا سامنا رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ دہائیوں کی معاشی ترقی نجی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوتی ہے‘ نہ کہ قرضوں جیسی مالی اعانت کے ذریعے۔ پاکستان میں موجودہ ریگولیٹری نظام ایک گزرے ہوئے دور کی باقیات ہے جس کا مقصد سہولت فراہم کرنے کے بجائے زیادہ کنٹرول اور زیادہ انتظام حکومتی اداروں کے پاس رکھنا تھا۔ دنیا اوپن مارکیٹ کی طرف جا رہی ہے اور اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ معاشی اصلاحات میں ڈی ریگولیٹری پالیسیوں کو ترجیح دی جائے کیونکہ صرف ایسا ہی کر کے پاکستان پیداواری فوائد حاصل کر سکتا ہے تاہم ڈی ریگولیٹری اقدامات کرنا آسان نہیں ہوگا اور اِس کے لئے قوانین و قواعد میں تبدیلی کے علاؤہ مالی وسائل کی بھی ضرورت ہو گی۔ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے سرمایہ کاروں کو زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہوں گی جس کے لئے سنگل ونڈو آپریشن کے تحت پاکستان بزنس پورٹل کو مکمل طور پر فعال کرنا ہوگا۔ریگولیٹری اصلاحات کے حوالے سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران تکنیکی کوششوں کے محدود نتائج برآمد ہوئے ہیں جبکہ ضرورت فوری اور تیزرفتار اصلاحات کی ہے اور اِس مقصد کے لئے ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ دنیا کی سبھی ترقی یافتہ اُور ترقی پذیر معاشی طاقتوں نے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے جس سے نتائج پاکستان کے لئے بھی اطمینان بخش ہو سکتے ہے۔ پاکستان کو سرمایہ کاروں کی ذہنیت سمجھنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ سرکاری ادارے کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنے اختیارات سے ہاتھ دھوئیں البتہ حکومت (ریاست) کی ذمہ داری ہے کہ وہ وسیع تر ملکی مفاد میں اُن تمام رکاوٹوں کو دور کرے جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی کے امکانات وسیع ہیں جن سے خاطرخواہ استفادہ ہونا چاہئے۔ پاکستان کے پاس نوجوانوں کی صورت افرادی قوت جیسا قیمتی سرمایہ موجود ہے اور اگر اِس افرادی قوت کا درست استعمال کیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ معیشت کی اصلاحی کوششیں رنگ لائیں گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خاقان حسن عباسی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)