چند روز قبل آزاد جموں و کشمیر میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی‘ عوام غصے سے بھڑک اُٹھے۔ روشن مستقبل کے خواہشمند لوگوں میں مایوسی کی گونج سنائی دے رہی تھی اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے تیئس ارب روپے پیکج کی فوری منظوری کشمیر کے لوگوں کے لئے راحت اور لائف لائن لگتی ہے لیکن اس سے ایک اہم سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مالی اضافہ دیرپا استحکام کے لئے کافی ہے یا یہ محض ایک عارضی حل ثابت ہوگا؟ کسی قوم کا حقیقی پیمانہ یہ نہیں ہے کہ وہ آرام کے وقت کس طرح کام کرتی ہے‘بلکہ یہ ہے کہ وہ بحران کے چیلنجوں سے کیسے نمٹتی ہے۔ یہ احساس آزاد کشمیر میں حالیہ مظاہروں سے واضح طور پر ظاہر ہوا ہے‘ جو پاکستان میں وسیع تر بحران کو اجاگر کر رہا ہے اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور بھی کر رہا ہے کہ کیا کوئی قوم صرف قلیل مدتی حل پر ترقی کر سکتی ہے؟آزاد جموں و کشمیر میں بدامنی پاکستان میں امن و امان و معاشی بدحالی کی عکاسی ہے‘ ہمارے ملک کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر بہت زیادہ انحصار ہے جس کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز دکھائی دیتا ہے۔ یہ قرضے نہ صرف ہماری داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ملک کی موجودہ مشکلات میں بھی اضافے کا باعث ہیں‘ بلکہ بڑھتی ہوئی افراط زر سے لے کر عوام پر بڑھتے ہوئے ٹیکس کے بوجھ‘ معاشی عدم مساوات میں اضافہ بھی انہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر رواں مالی سال کے دوران پاکستان میں افراط زر کی شرح چھبیس فیصد رہنے کا امکان ہے جس سے لوگوں کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوگی۔ بجلی کے نرخ اونچے ہیں جو اوسط گھریلو آمدنی کا حیرت انگیز طور پر سو فیصد کے مساوی ہو چکے ہیں‘ توانائی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ جزوی طور پر آئی ایم ایف کی قرضوں کی شرائط کا نتیجہ ہے‘ جس کی وجہ سے حکومت کو توانائی کی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنا پڑا ہے۔ فروری دوہزارچوبیس میں یعنی دو ماہ میں دوسری بار‘ حکومت نے گیس کمپنیوں کی مدد اور آئی ایم ایف کی قرض شرائط پورا کرنے کے لئے گیس کی قیمتوں میں پینتالیس فیصد اضافہ کیا۔ گیس کی قیمتوں میں اس اضافے نے افراط زر کے دباؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ملک میں گیس کے استعمال کے لحاظ سے گھریلو شعبہ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ پاور سیکٹر پہلے نمبر پر ہے۔ واضح رہے کہ گردشی قرضہ بڑھ کر 2.3 کھرب روپے (قریب نو ارب ڈالر) ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے بلوں میں حالیہ اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف معاشی بدحالی نے قومی معاش کی صورتحال کو شدید متاثر کیا ہے اور بحران زدہ پاکستان میں تقریباً سولہ سو ٹیکسٹائل فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق سات لاکھ کارکن بے روزگار ہوئے ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری نہ صرف خاندانوں کو تباہ کرتی ہے بلکہ معاشی استحکام کو بھی خطرے میں ڈالے ہوئے ہے۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ‘ ملک کی کل برآمدی آمدنی کا تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔صحت کا شعبہ نئے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے‘ پاکستان ہیپاٹائٹس بی اور سی کی وباء سے لے کر سات فیصد آبادی کو متاثر کئے ہوئے ہے جبکہ تپ دق کے بوجھ اور فوکل جغرافیائی علاقوں میں ملیریا کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم بہت زیادہ ہے‘ دیہی علاقے صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور بنیادی ڈھانچے تک رسائی میں شہروں سے پیچھے ہیں۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں 193ممالک میں سے پاکستان ایک سو چونسٹھویں نمبر پر ہے اور یہ عالمی رینکنگ کم ہیومن ڈیولپمنٹ کیٹیگری میں بھی شامل ہے۔ عالمی بینک نے کہا ہے ایک کروڑ سے زائد مزید پاکستانی خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنے بنیادی بجٹ اہداف کے حصول سے محروم رہے گا اور یہ مالیاتی خسارہ کم از کم مزید تین سال تک جاری رہے گا۔ اس سے دو اہم نکات سامنے آتے ہیں: پہلا یہ کہ قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث بلاتاخیر شروع ہونی چاہئے اور دوسرا یہ کہ آئی ایم ایف کے قرضوں پر انحصار کم کیا جائے۔ واضح ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے پاکستان کے لئے لائف لائن نہیں ہیں اور یہ پاکستانیوں کی گردن میں پھندا ہیں۔ افراط زر میں اضافے اور ٹیکسوں میں اضافے نے متوسط اور نچلے طبقے کو دبا رکھا ہے جبکہ ضروری خدمات کے لئے دستیاب مالی وسائل کم ہے۔ اس کے علاوہ کسان اُور کاشتکار خود کو نظرانداز سمجھتے ہوئے مایوسی کا شکار ہیں۔ اس بحران سے آگے بڑھنے کے لئے پاکستان کو کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔ سب سے پہلے‘ ہمیں اپنی معاشی حکمت عملی کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔اس میں مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر آئی ایم ایف کے قرضوں پر انحصار ختم کرنا‘ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور برآمدی پالیسیوں کو بہتر بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان چوراہے پر کھڑا ہے۔ اب ہم جس راستے کا انتخاب کرتے ہیں وہ آنے والی نسلوں کے لئے ہمارے مستقبل کا تعین بھی کرے گا۔ صرف سیاسی استحکام کافی نہیں۔ ہمیں ایسے فیصلہ کن اقدامات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے جو ہمارے شہریوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں اور خالصتاً سلامتی پر مبنی نقطہ نظر کے حامل ہوں۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور لاء پی ایچ ڈی ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر شرمیلا فاروقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک امریکہ تعلقات: ترقیاتی امکانات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سماجی ارتقائ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام