مؤثر حکمرانی وتبدیلی: لائحہ عمل کی ضرورت؟

پاکستان میں قوانین و قواعد اور ان پر عمل درآمد سے متعلق لائحہ عمل (پالیسیوں) کی قطعی کوئی کمی نہیں لیکن مسئلہ ارادے اور عملی اقدامات کے فقدان کا ہے۔ ضرورت ایک مربوط ردعمل اور قومی نقطہ نظر کی ہے جس سے مؤثر حکمرانی اور تبدیلی آئے۔ ایسی کئی ایک پالیسیاں ہیں جن کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جیسا کہ اطلاعات کے مطابق حکومت شمسی توانائی خریدنے والوں کی حوصلہ شکنی چاہتی ہے تاکہ وہ مہنگے داموں گرڈ سے بجلی خریدتے رہیں۔ اسی طرح ایک اور واضح مثال رواں سال گندم کی بے وقت درآمد رہی جس کی وجہ سے پاکستان میں گندم کے کاشتکاروں کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ گندم موجود ہے لیکن کوئی خریدنے والا نہیں اور کاشتکاروں کو ان کی محنت کا خاطرخواہ معاوضہ نہیں مل رہا۔ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے سال دوہزاراکیس میں وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی (ایم این ایف ایس آر) کیلئے ’فوڈ سکیورٹی ڈیش بورڈ‘ تیار کیا تھا۔ جس میں دیگر اشیائے خوردونوش کے علاؤہ گندم کے ذخائر‘ طلب‘ بین الاضلاعی نقل و حمل اور ضلعی سطح پر قیمتوں کے بارے میں رئیل ٹائم ڈیٹا فراہم کیا گیا۔ اس میں گندم کی درآمدات اور ان کی مطلوبہ کھپت کے علاقوں کے بارے میں رئیل ٹائم ڈیٹا بھی شامل کیا گیا۔ اعداد و شمار کی صداقت کے ذمہ دار چیف سیکرٹریز تھے اور صوبوں نے 
روزانہ اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ پورٹل کا مقصد ڈیٹا پر مبنی فیصلے کرنے میں فیصلہ سازوں کی مدد کرنا تھا۔ تاہم ایم این ایف ایس آر نے مذکورہ سہولت (پورٹل) کا استعمال بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً پالیسی سازوں نے بڑی تصویر کو نظر انداز کر دیا اور فصل کی کٹائی کے وقت ہی گندم درآمد کرنے کی غلطی کی جس کی وجہ سے آنے والی فصل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی۔ ان کے علاؤہ بھی کئی ایک مثالیں ہیں‘ جن کی وجہ سے قومی مالی وسائل بھی ضائع ہو رہے ہیں۔ قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت داروں سے قرضوں یا گرانٹس کے اہل ہونے کیلئے بہت ساری پالیسیاں جلد بازی میں بنائی جاتی ہیں۔ یہ پالیسیاں اکثر قرض دہندگان یا عطیہ دہندگان کی طرف سے طے کردہ ڈیڈ لائنز یا شرائط کو پورا کرنے کیلئے ڈیزائن کی جاتی ہیں بجائے اسکے کہ وہ ایک مربوط قومی حکمت عملی سے چلیں۔ یہ نقطہ نظر پالیسی سائلوز کے مسئلے کو بڑھاتا ہے کیونکہ مختلف وزارتیں الگ تھلگ اقدامات میں جلدی کرتے ہوئے وسیع تر‘ مربوط اہداف وضع کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ یہ نقطہ نظر پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) پر عمل درآمد میں بھی رکاوٹ ہے۔ مثال کے طور پر‘ ایس ڈی جی 8 (کام کاج اور معاشی ترقی) اور ایس ڈی جی 13 (آب و ہوا کے تحفظ سے متعلق اقدامات) ایک دوسرے سے متصادم ہو سکتے ہیں۔ صنعتی توسیع کے ذریعے معاشی ترقی کو فروغ دینے والی پالیسیوں سے کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوسکتا ہے‘ جس سے آب و ہوا کے تحفظ سے متعلق اقدامات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح معاشی اثرات پر غور کئے بغیر جارحانہ آب و ہوا کی پالیسیاں روزگار کی تخلیق اور معاشی ترقی کو روک سکتی ہیں۔پاکستان میں پالیسی سازی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مکمل پالیسی اور حکومت کی مکمل حکمت عملی ضروری ہے۔ اس نقطہ نظر میں بین الوزارتی مواصلات کا فروغ‘ مشترکہ منصوبہ بندی کی حوصلہ افزائی اور مربوط پالیسی فریم ورک قائم کرنا شامل ہیں۔ مشترکہ اقدامات پر تعاون کرنیوالے محکموں کیلئے مالی اور انتظامی ترغیبات کی فراہمی کسی حد تک اس بات کو یقینی بناسکتی ہے کہ پالیسی کے مقاصد ہم آہنگ اور باہمی طور پر مستحکم ہوں۔ پالیسی فریم ورک تیار کرنا جس کیلئے بین الوزارتی ان پٹ اور جائزے کی ضرورت ہوتی ہے‘ پالیسی فیصلے کرنے سے پہلے متعلقہ نقطہ نظر پر غور کرنے میں مدد ملے گی۔ دیگر ممالک کی کامیاب مثالیں‘ جیسے مربوط شہری منصوبہ بندی 
فریم ورک یا کراس سیکٹرل ماحولیاتی پالیسیاں‘ پاکستان کے لئے ماڈل کا کام کر سکتی ہیں۔ مزید برآں‘ شواہد پر مبنی اور اعداد و شمار پر مبنی پالیسی سازی کو اپنانا پالیسی سائلوز سے پیدا ہونے والے چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے بہت ضروری ہے۔ ’ڈیٹا فار ڈیویلپمنٹ‘ جیسے اقدامات پالیسی فیصلوں کو مطلع کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ مفروضوں یا من مانی ترجیحات کے بجائے مضبوط شواہد پر مبنی فیصلے یا اقدامات کریں کیونکہ اسی میں قومی مفاد مضمر ہے۔ مثال کے طور پر‘ جامع اعداد و شمار کے تجزیے کا استعمال اور توانائی‘ مالی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں اعداد و شمار کو سہ رخی کرنے سے قابل تجدید توانائی اور فوسل ایندھن میں سرمایہ کاری ہم آہنگ کرنے میں مدد مل سکتی ہے‘ اس بات کو یقینی بنانے میں کہ ماحولیاتی‘ ادائیگیوں کا توازن اور معاشرتی اہداف ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ میثاق جمہوریت کے ساتھ ملے جلے نتائج اور میثاق معیشت کی ناکام کوششوں کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہیں بلکہ حکومتی وزارتوں اور محکموں کے اندر ’چارٹر آف چینج‘ کی کوششیں کرنے پر بھی سوچ بچار ہونا چاہئے یقینا ”پالیسی کلچر“ تبدیل کرکے ہم پاکستان میں زیادہ مؤثر حکمرانی قائم کرسکتے ہیں‘ ایک ایسا طرز حکمرانی جو عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ ابوالحسن امام)