سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے عروج پر رہنے کے بعد‘ ایسا لگتا ہے کہ لبرل عالمی نظام اپنے غروب آفتاب کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ بین السطور لبرل نظام کا مرثیہ محنت کش طبقے یا کسی حریف نظریے کے حامیوں کی طرف سے نہیں بلکہ اس کے اندرونی تضادات کی وجہ سے لکھا جا رہا ہے۔ انیسویں صدی کے جرمن فلسفی ہیگل نے کہا تھا کہ ہر نظریہ اور ہر نظام اپنے اندر اپنی ہی تباہی کے بیج رکھتا ہے۔ کون سے اندرونی تضادات لبرل نظام کو قبر کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف میں انگلستان میں لبرل ازم نے جنم لیا جس کا مقصد براعظم یورپ میں پھیلنے سے پہلے صنعتی انقلاب کو روکنا تھا۔ لبرل ازم کی فکری بنیاد تین برطانوی مفکرین نے فراہم کی۔ اِن میں ایڈم سمتھ‘ ڈیوڈ ریکارڈو اور جیریمی بینتھم شامل تھے۔ اسمتھ اور ریکارڈو نے کلاسیکی معاشیات کی بنیاد رکھی جبکہ بینتھم نے لبرل ازم کی قانونی اور سیاسی بنیادیں رکھیں۔ لیز فیئر‘ جس کا لفظی ترجمہ ’ہمیں اکیلا چھوڑ دو‘ کے طور پر کیا جاتا ہے‘ ایک قسم کا معاشی نظریہ تھا جبکہ افادیت پسندی‘ جس نے انفرادی خوشی کے تصور کو پیش کیا تھا‘ لبرل ازم فلسفے کا سماجی پہلو ہے۔ یہ دونوں نظریات جدید دنیا میں سیاسی اور معاشی تنظیم کی دو سب سے مشہور اشکال یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور نمائندہ جمہوریت کو آسانی سے ختم کر دیتے ہیں۔ لبرل ازم کی دونوں حقیقتوں میں مشترک عقیدہ یہ تھا کہ آزادی کا مطلب قانونی پابندیوں کی عدم موجودگی ہے۔ بینتھم کے لئے‘ قانون اور آزادی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جب اس نظریے کا اطلاق صنعتوں پر کیا گیا تو کام کرنے کے خوفناک حالات پیدا ہوئے اور حکومت نے معاہدے کی آزادی کے نام پر اپنے ہاتھ بند کر لئے۔ اس صورتحال نے بعد کے لبرل مفکرین کو معاشرے کے مفاد میں حکومت کے لئے زیادہ فعال کردار قبول کرنے پر مجبور کیا۔ اس طرح سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی چہرہ اختیار کر لیا۔لبرل فلسفہ فطرت کے دو باہمی طور پر متضاد تصورات پر منحصر ہے اور یہ دونوں ہی قدیم زمانے کے ہیں۔ پہلا تصور فطرت کو ہم آہنگی اور انصاف کے طور پر شناخت کرتا ہے۔ فطری ترتیب سے کام کیا جائے تو کوئی بھی نظریہ لازمی طور پر خوشحالی لاتا ہے۔ فطرت کے بارے میں ہم آہنگ نظریے کا ایک مطلب لیبر تھیوری آف ویلیو تھا۔ اگر مزدور وں کو گزر بسر کی اجرت ملتی ہے‘ تو ان کی قیمت بھی کم ہوگی‘ یعنی قصور ان کا ہے نہ کہ نظام کا۔ کسی بھی قیمت پر‘ چاہے مزدور خوشحال ہوں تو اِس کا نتیجہ ’قدرتی انصاف‘ سمجھا جاتا ہے۔ فطرت کا دوسرا تصور اسے کسی بھی اخلاقی معنی سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ نظریہ معاشرے کو افراد کے بجائے طبقات پر مشتمل سمجھتا ہے۔ ایک طبقے کے مفادات ہمیشہ دوسروں کے مفادات کے برعکس ہوتے ہیں اور اس طرح طبقاتی کشمکش کا باعث بنتے ہیں اور پھر جیسے جیسے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے‘ کاشت کاری بھی بڑھتی ہے جس کے نتیجے میں زمیندار کے لئے زیادہ جبکہ سرمایہ دار کے لئے منافع کی شرح کم ہوتی ہے جبکہ مزدور کو حسب محنت اجرت ملتی ہے۔ اسی طرح کلاسیکی ماہرین معاشیات نے زمین کے مالک اور دیگر دو طبقوں (سرمایہ داروں اور مزدوروں) کے درمیان دائمی دشمنی کو اجاگر کیا ہے۔ اِس کے تاریخی پس منظر میں آزاد تجارت کا مؤقف اختیار کرنا ضروری تھا۔ یہ کارل مارکس کی ذہانت پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ لیبر تھیوری آف ویلیو کی منطق کو استعمال کرتے ہوئے یہ ظاہر کریں کہ محنت کش اور سرمایہ دار طبقوں کے مفادات بھی ناقابل تلافی ہیں اور سرمایہ دار مرکزی ولن ہے تاہم مارکس کی پیش گوئی کے برعکس‘ محنت کش طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ روسی اور چینی سرخ انقلابات زرعی یا قبل از صنعتی معاشروں میں رونما ہوئے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام نے سماجی قانون سازی کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام نے کمیونزم کو دور رکھنے کے لئے فلاحی ریاست قائم کی۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں مارکسی خطرہ ختم ہو چکا تھا‘ سرمایہ دارانہ نظام نے فلاحی ریاست کو ختم کر دیا اور نیو لبرل ازم کو جنم دیا‘ جو بنیادی طور پر غیر منصفانہ سرمایہ دارانہ نظام کے احیاء کی نمائندگی کرتا تھا۔لبرل اکنامکس کی بنیاد مارکیٹ کی قوتوں پر ہے۔ انفرادی آزادی‘ انتخاب کا حق‘ آزاد تجارت‘ بلا روک ٹوک مسابقت‘ کاروبار کی آزادی‘ معاشی انضمام‘ کھلی سرحدیں اور لچکدار منڈیاں جیسے جملے لبرل انقلاب کا تعارف اور پہچان ہیں۔ لبرل ازم نے معاصر معاشی سوچ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے‘ جس کے نتیجے میں لفظ ’اصلاح‘ ایک ایسا انتظام قائم کرنے کا مترادف عمل بن گیا ہے جس میں مارکیٹ ریاست اور معاشرے دونوں کو ناک کی سیدھ میں چلنا ہوتا ہے۔ لبرل ازم کے بانیوں کے ساتھ ساتھ اس کے مخالفین کا خیال تھا کہ سرمایہ دارانہ ترقی کے تقریبا لامحدود امکانات صرف مغربی اقدار پر مبنی جمہوری سیاست میں ہی عملی جامہ پہنائے جا سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر بھی سرمایہ دارانہ نظام اور کثیر الجماعتی جمہوریت ایک ساتھ چلتے رہے ہیں چنانچہ جب 1980ء کی دہائی کے اواخر میں سوویت رہنما میخائل گورباچوف کے اقدامات کو دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے سوشلسٹ معیشت کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا تو ان کے امریکی ہم منصبوں نے اُنہیں مطلق العنان سیاسی نظام کو بھی تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جس سے اتفاق کرتے ہوئے اُنہوں نے ریاست ہائے متحدہ روس (یو ایس ایس آر) کو توڑ دیا۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین ایچ زیدی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اس کے ساتھ ساتھ امریکیوں نے ایک اور بڑے سوشلسٹ ملک چین سے بھی اسی طرح کے مطالبات کئے لیکن چینی قیادت دور اندیش تھی کہ اس مشورے پر دھیان نہیں دیا۔ چینیوں نے مارکیٹ کی معاشیات کو اپنایا لیکن اسے اپنے معاشرے کے بنیادی حالات اور منفرد تاریخ کے مطابق ڈھال لیا۔ آج سوشلسٹ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور عالمی مینوفیکچرنگ کا مرکز ہے۔ لبرل ازم کا مستقبل کیا ہے اِس بات سے قطع نظر‘ سرمایہ دارانہ نظام خطرے میں نظر نہیں آ رہا۔ پچھلی دو صدیوں میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔ اکیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی بقاء کے لئے جدوجہد کر رہا ہے جبکہ یہ لبرل ازم کے خاتمے سے بھی نہیں ہچکچائے گا اور یہی اصول ہے کہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا معاشی نظام کسی دوسرے‘ نسبتاً زیادہ بہتر نظام کے ظاہر ہونے تک جاری و ساری رہتا ہے۔