خلائی تحقیق نے کرہ ارض‘ نظام شمسی اور اس سے آگے کی وسعتوں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کی ہیںتاہم گزشتہ چند دہائیوں میں جاری تحقیق کی وجہ سے خلاءمیں ملبہ پھیل گیا ہے‘ خلائی سیاروں (سیٹلائٹس) یا راکٹوں کی ہر لانچ خلائی کچرے میں اضافہ کر رہی ہے‘ جس سے یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ نہ صرف خلائی مشن بلکہ مستقبل میں ایسی کوششیں کچرے کے باعث ناکام ہوں گی اور یہ ایک مستقل خطرہ رہے گا‘1957ءمیں روس کے اسپوتنک ون کو خلاءمیں بھیجنے (لانچ) کے بعد سے زمین کے مدار میںخرابیاں پیدا ہوئی ہیں جو نمایاں ہیں اور جن سے پیچھے چھوڑے گئے ملبے کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ آج چند ممالک کو چھوڑ کر‘ دیگر ممالک اس خطرے کو کم کرنے کے لئے خاطرخواہ کوششیں نہیں کر رہے جبکہ ضرورت تعاون میں اضافے کی ہے‘ مسلسل بڑھتے ہوئے خطرے کو خلاءمیں کیسلر سنڈروم کے تصور کے ذریعے بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ رجحان اس وقت ہوتا ہے جب زمین کے نچلے مدار (ایل ای او) میں موجود اشیاءاس قدر بے ترتیب ہو جاتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتی ہیں‘ جس سے مزید ملبہ اور زیادہ ٹکراو¿ پیدا ہوتا ہے‘ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ خلاء’ایل ای او کیسلر سنڈروم‘ کی طرف بڑھ رہا ہے اگرچہ ہر خلائی سرگرمی ملبے کے مسئلے میں اضافہ کرتی ہے لیکن اینٹی سیٹلائٹ (اے ایس اے ٹی) میزائل تجربات انتہائی غیر منطقی ہیں کیونکہ وہ مدار میں موجود ملبے میں تیزی سے اضافہ کرکے انسانی خلائی تحقیق کے لئے اندھا دھند خطرہ ہیں‘ امریکہ نے 1984ءمیں اپنے اے ایس اے ٹی کا تجربہ کیا تھا ‘ چین (2007ئ) اور روس (2014ءاور 2021ئ) نے اس کی پیروی کی تھی۔ بھارت اس فہرست میں شامل ہونے والا نیا ملک ہے۔ خلاءمیں حادثاتی ٹکراو¿ کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے‘ جیسا کہ سال دوہزارنو میں دو سیٹلائٹس‘ کوسموس اور ایریڈیم کے درمیان ٹکراو¿ ہوا تھا۔ اس طرح کے واقعات نے مدار کے ملبے کے مسئلے کو بدتر بنا دیا ہے اور تباہ کن خلائی حالات کا امکان بھی بڑھا دیا ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق‘ ایل ای او میں ایک سینٹی میٹر (سینٹی میٹر) سے چھوٹے ملبے کے تقریبا ًایک سو اٹھائیس ملین ٹکڑے اور ایک سے دس سینٹی میٹر کے درمیان تقریباً نو لاکھ ٹکڑے موجود ہیں۔ خلائی دور کے آغاز سے لے کر اب تک 12ہزار سے زائد سیٹلائٹ زمین کے مدار میں لانچ کی جا چکی ہیں۔ ان میں تقریبا تین ہزار خلائی جہاز شامل ہیں۔آپریشنل سیٹلائٹس اور خلائی مشنوں کے لئے فوری خطرات کے چند دیگر عوامل ہیں۔ بین الاقوامی خلائی ایجنسی اُنیس سو ننانوے سے اب تک خلائی ملبے کو صاف کرنے کے لئے اُنتیس مشقیں کر چکی ہے جبکہ خلا ءمیں صفائی کی ضرورت اِس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بڑھتی ہوئی خلائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے اور حکومتوں کی جانب سے بہت سے ریگولیٹری اور تخفیف کے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ امریکی خلائی فضلے کے انتظام کے ضوابط میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک خلائی سیارے کی پچیس سالہ زندگی مکمل ہونے کے بعد اُسے فعال نہیں رکھ سکتا اُور وہ کچرے میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر وریشہ رشید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
تاہم‘ ان قوانین میں ترمیم کی گئی ہے تاکہ سیٹلائٹ کو زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک خلا میں رہنے کی اجازت دی جا سکے۔ یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) اپنے زیرو ملبے کے نقطہ نظر کے تحت‘ جو ایجنڈا 2025ء کا حصہ ہے‘ سال دوہزارتیس تک زمین اور چاند کے مدار میں پیدا ہونے والے ملبے کی مقدار کو نمایاں طور پر محدود کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ اِن ریگولیٹری اقدامات کے علاو¿ہ ‘ مدار کے اوور لوڈ کو کم کرنے کے لئے بھی متعدد طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس طرح کے ایک طریقہ کار میں سیٹلائٹ کو قدرتی طور پر زمین کی سطح کے قریب لانا بھی شامل ہے تاکہ اُسے جلا کر ختم کیا جا سکے اِسے ایروڈائنامک جلانا کہا جاتا ہے اُور یہ دیگر طریقوں کی نسبت کم خرچ ہے۔ اسی طرح کی ایک اور ٹیکنالوجی ہارپون کہلاتی ہے جس میں خلائی سیاروں یا اُن کے ناکارہ ٹکڑوں (ملبے) کو ڈی آربیٹ کیا جاتا ہے۔ خلائی ملبے کو کم کرنا مستقبل کے مشنوں کے لئے پائیدار خلائی ماحول برقرار رکھنے کے لئے اہم ہے۔ زمین کے مدار میں لانچ کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کے نتیجے میں ملبے کی تعمیر اہم خطرات پیدا کرتی ہے لیکن خلائی آلودگی کم کرنے والے اقدامات اور تکنیکی حل حقیقی طور پر خلاءکو صاف رکھنے اور مستقبل میں انسانی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔