ڈیجیٹل دور میں‘ سڑکوں اور پلوں کی تعمیرات کے لئے جدید ڈیجیٹل فریم ورک کا استعمال کیا جاتا ہے جسے ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر (ڈی پی آئی) بھی کہا جاتا ہے اور یہ ایک ایسے نظام اور پلیٹ فارمز کا احاطہ کرتا ہے جو ضروری ڈیجیٹل خدمات فراہم کرتے ہیں اور جو جدید معیشتوں اور معاشروں کو کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ ’ڈی پی آئی‘ سے مراد عوام‘ کاروباری اِداروں اور حکومتوں کے درمیان ڈیجیٹل تعامل کی سہولت فراہم کرنے والا بنیادی نظام اور خدمات ہوتی ہیں۔ اِن نظاموں میں ڈیجیٹل شناخت‘ ادائیگی کے نظام‘ ڈیٹا ایکس چینج پلیٹ فارم اور انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی بھی شامل ہیں۔ ڈی پی آئی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ڈیجیٹل خدمات تمام صارفین کے لئے قابل رسائی‘ قابل اعتماد اور محفوظ ہوں۔ڈیجیٹل شناختی نظام افراد کو منفرد ڈیجیٹل شناخت فراہم کرتے ہیں جو مختلف خدمات تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام ایک ایسا پلیٹ فارم ہوتا ہے جو محفوظ اور مو¿ثر انداز میں الیکٹرانک لین دین کو ممکن بناتا ہے۔ ڈیٹا تبادلے کے پلیٹ فارم ایسا نظام ہوتا ہے جو مختلف اداروں کے درمیان ڈیٹا کے محفوظ اشتراک کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور یہ رازداری اور باہمی تعاون کو یقینی بناتے ہیں۔ انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی کے ذریعے ڈیجیٹل خدمات تک رسائی کا مضبوط انٹرنیٹ انفراسٹرکچر ضروری ہوتا ہے۔ جنوبی کوریا کے تیز رفتار انٹرنیٹ اور گوگل کے ’پروجیکٹ لون‘ جیسے اقدامات کا مقصد وسیع پیمانے پر اور قابل اعتماد رابطے فراہم کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری خدمات کے پلیٹ فارم کے ذریعے سرکاری اداروں کی فراہم کردہ خدمات کو ڈیجیٹائز کیا جاتا ہے جس سے انہیں زیادہ قابل رسائی بنایا جاتا ہے۔مختلف ممالک نے ’ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر‘ نظام قائم کر رکھا ہے۔ بھارت کی ڈی پی آئی آدھار نظام میں ایک ارب سے زیادہ لوگوں کے لئے بائیو میٹرک پر مبنی ڈیجیٹل شناخت تشکیل دی گئی ہے۔ یو پی آئی نے ڈیجیٹل ادائیگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے اور لین دین کو آسان اور قابل رسائی بنایا گیا ہے۔ اے پی آئی کا ایک سیٹ انڈیا اسٹیک ڈیٹا کے تبادلے اور خدمات کی فراہمی کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔ ایسٹونیا اپنے ایکس روڈ پلیٹ فارم کے ساتھ ڈیجیٹل گورننس میں پیش پیش ہے‘ جو مختلف سرکاری اور نجی شعبوں میں محفوظ ڈیٹا کے تبادلے کو ممکن بناتا ہے۔ ای ریزیڈنسی پروگرام عالمی شہریوں کو ایسٹونیائی ڈیجیٹل خدمات تک رسائی حاصل کرنے اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیتا ہے۔ کینیا کے ’ایم پیسا‘ نے خاص طور پر دیہی علاقوں میں لاکھوں افراد کو موبائل پر مبنی ادائیگی اور بینکاری خدمات فراہم کی ہیں اور یہ جدید طرز کی بینکنگ سے محروم آبادی کے لئے اہم رہی ہے۔ سویڈن کا سویش ادائیگی کا نظام ‘ جسے بڑے بینکوں نے اپنا رکھا ہے‘ ریئل ٹائم موبائل ادائیگی کرتا ہے اور یہ ای گورنمنٹ خدمات میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ جس میں انٹرنیٹ کی زیادہ رسائی اور ڈیجیٹل خواندگی شامل ہے۔ سنگاپور کا مائی انفو پلیٹ فارم ڈیجیٹل شناخت فراہم کرکے شہریوں اور حکومت کے مابین ڈیجیٹل تال میل بنائے ہوئے ہے۔ سمارٹ قومیں ڈیجیٹل وسائل کے استعمال و اقدامات سے عوام کی زندگیوں میں بہتری لا رہی ہیں اور یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اِن اقدامات سے عوام کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے۔اگر ہم ”جنریٹیو اے آئی“ کی بات کریں جو مصنوعی ذہانت کے میدان میں اہم پیشرفت ہے تو اِس کی آمد سے متن ‘ تصاویر اور دیگر مواد خود کار طریقے سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ جنریٹیو اے آئی کا استعمال جب ڈی پی آئی کے ذریعے کیا جاتا ہے تو اِس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل آلات کا استعمال کا بنیادی مقصد بہتر خدمات کی فراہمی ہے اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس ڈیجیٹل خدمات تک رسائی حاصل کرنے والے صارفین کی فوری‘ اور ذاتی مدد فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ڈیجیٹل آلات سے ماضی کے مقابلے بہتر ڈیٹا سیکورٹی بھی حاصل ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے سائبر سکیورٹی کے ممکنہ خطرات کا بروقت پتہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ ڈی پی آئی سسٹم کے اندر اِس کے استعمال سے حساس معلومات کی حفاظت ممکن ہوتی ہے۔جنریٹیو اے آئی‘ مصنوعی ذہانت رجحانات اور ضروریات کی پیش گوئی کرتی ہے جس سے اعداد و شمار کا تجزیہ ممکن ہوتا ہے اور اِس کے ذریعے صحت عامہ کی دیکھ بھال ‘ ٹریفک مینجمنٹ اور دیگر آفات سے نمٹنے جیسے مسائل کو فعال طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔اِسی طرح مصنوعی ذہانت معمول کے انتظامی کاموں کو خودکار بنا سکتی ہے‘ جس سے کارکردگی میں بہتری آتی ہے اور زیادہ پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لئے انسانی وسائل کی دستیابی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز معذور افراد کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں جو اِس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ڈی پی آئی واقعی جامع ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مرتضی کھوڑو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
دنیا مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو چکی ہے تو قانون کی حکمرانی‘ اچھی حکمرانی‘ شفافیت‘ احتساب‘ بہتر کارکردگی‘ بدعنوانی میں کمی اور شراکتی اقتصادی ترقی پر مبنی جامع معاشرے کی تشکیل کے لئے دستیاب وسائل بروئے کار لانے چاہیئں جو انوکھا اور نادر موقع بھی ہے۔
اِس ویژن کے حصول کے لئے ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کی بلاتاخیر ترقی کی ضرورت ہے۔ پانچ سے چھ ماہ کے اندر کاروائی کر کے ڈیجیٹل اسلوب کو اپنایا جا سکتا جو ایک قابل عمل حل ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ کاروباری افراد اور دیگر قوتوں کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں ڈی پی آئی کی تیاری و استعمال کی حمایت کریں جو اپنی ذات و خصوصیات میں فی الوقت معاشی تبدیلی‘ سیاسی استحکام اور عوام کی خوشحالی کا بنیادی و پائیدار حل ہے۔