چھوٹے آبی ذخائر کا مقدمہ

یہ چھوٹے آبی ذخائر (ڈیموں) کی تعمیر کا دور ہے۔ دنیا بھر میں بڑے ڈیموں کا دور تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ماضی میں جو ماہرین بڑے ڈیموں کے خواب فروخت کرتے تھے‘ اب بڑے ڈیموں کی مخالفت کر رہے ہیں! جدید دنیا میں پانی ذخیرہ کرنے اور اِس کے استعمال کا ماڈل بڑے ڈیموں سے چھوٹے ڈیموں میں تبدیل ہو گیا ہے جو مقامی اور عالمی سطح پر ماحول دوست اور پائیدار معاش اور ماحولیات کے لئے سب سے زیادہ ترجیحی آپشن ہے اور اب بحث چھوٹے ڈیموں کی افادیت پر مرکوز ہے۔ پاکستان میں چھوٹے ڈیم اب کوئی ڈریم پراجیکٹ نہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کامیابی کی کہانی ہے جس میں بڑے فوائد پوشیدہ ہیں اور یہ مقامی اور قومی معیشتوں میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو چھوٹے ڈیموں کی کئی کامیاب کہانیاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ضلع تھرپارکر میں کارونجھر پہاڑوں کے بیڈ پر واقع نگرپارکر بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جس نے مقامی لوگوں کی زندگیوں کو بہتر طور پر تبدیل کیا ہے اور سوشل میڈیا اُور مین سٹریم میڈیا بھی اِس منصوبے کے چرچے ہیں۔ ”نگرپارکر“ میں چھوٹے ڈیموں کا بنیادی ذریعہ بارش کا پانی ہے جو تقریباً بیس کلومیٹر لمبے اور تین سو فٹ اونچے کاروجھر پہاڑوں سے آتا ہے جہاں گرینائٹ اور چائنا مٹی کے وسیع ذخائر ہیں۔ حال ہی میں یہ منصوبہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب حکام نے یہاں کان کنی کی سرگرمیوں کے لئے گرین سگنل دیا۔ یہ علاقہ بھارت کے راجستھان سے متصل ہے۔ مون سون کے موسم میں یہاں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور پانی پہاڑوں سے نیچے گرتا ہے۔ ڈیم بننے سے قبل یہ پانی بیس سے زائد ندی نالوں میں بہہ جاتا تھا لیکن اب اِس پانی کو محفوظ کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ تاریخی طور پر‘ نگرپارکر کئی صدیوں تک جین مت کا مرکز رہا ہے جس کے طول و عرض میں مندروں کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ یہ علاقہ ایک کھلا عجائب گھر ہے جس میں قدرتی راستے‘ نباتات اور حیوانات و جانوروں‘ پرندوں اور پودوں کی نایاب اقسام موجود ہیں۔ ان چھوٹے ڈیموں کی وجہ سے اس علاقے کی پوری زندگی‘ منظر نامہ اور ذریعہ معاش بحال ہوا ہے۔سندھ کے دو خشک علاقے کیرتھر رینج اور صحرائے تھر انچاس فیصد رقبے پر مشتمل ہیں۔ یہ صوبے کا تقریباً آدھا حصہ ہے۔ یہ علاقے مکمل طور پر بارش پر منحصر ہیں اور یہاں بارش کا پانی چھوٹے ڈیموں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ضائع ہو جاتا تھا۔ بارشوں پر منحصر یا بارانی کے علاقوں میں پانی کی شدید قلت سے نمٹنے کے لئے سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی نے چھوٹے ڈیم تعمیر کئے جو ایک قابل تعریف اقدام ہے۔ محکمہ آبپاشی کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، مختلف سالانہ اور خصوصی ترقیاتی اسکیموں کے تحت صرف حیدرآباد ریجن نے اب تک 106چھوٹے ڈیمز کی تعمیر ہوئی ہے۔ نگرپارکر میں 51 چھوٹے ڈیم مکمل ہو چکے ہیں جبکہ پانچ مزید زیر تعمیر ہیں اور خاص بات یہ بھی ہے کہ نگرپارکر میں مزید چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر غور کیا جارہا ہے۔ یہ علاقہ ریت کے ٹیلوں اور خشک سالی کے لئے جانا جاتا ہے جہاں پانی کا ایک قطرہ کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ چھوٹے ڈیم نہ صرف پانی کے بیش قیمت ذخائر ہیں بلکہ وہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور زیر زمین پانی کو پانچ گنا زیادہ کرتے ہیں۔ اِن سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ مقامی افراد کو پائیدار معاش فراہم کرتے ہیں۔ ڈیم بننے سے ’نگرپارکر‘ کی وادی کو سال بھر پانی کی سہولت حاصل ہو گئی ہے جس سے انسانوں اور مویشیوں کے لئے پینے کا پانی اور فصلوں کی آبپاشی و سیرابی کا انتظام ہوا ہے اور اب اِس کے مثبت اثرات بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ رواں سال‘ اس علاقے میں پیاز کی زبردست فصل ریکارڈ کی گئی‘ جس سے قحط زدہ اس علاقے کو آمدنی کی صورت ترقی ملی۔ نگرپارکر سے چار ارب روپے سے زائد مالیت کی پیاز اوپن مارکیٹ میں فروخت ہوا‘ جس سے کاشتکاروں اور زمینداروں کے خوابوں کو آمدنی کی صورت تعبیر ملی۔  نتیجتاً زمین کی قیمت تقریبا دوگنی ہو گئی ہے اور چھوٹے ڈیموں کے کیچمنٹ علاقوں کے قریب بھی زمینوں کی قیمت میں اضافہ جاری ہے۔سماجی فلاح و بہبود اور بھرپور فصلوں کے علاؤہ چھوٹے ڈیم جنگلی حیات کی زندگی اور بقا ء میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور وہ جانور جن کی اقسام معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہوا کرتی تھیں‘ اِن آبی ذخائر کی وجہ سے محفوظ ہو گئے ہیں جبکہ ماضی میں پانی نہ ہونے (خشک سالی) کی وجہ سے جانوروں کی اموات ہوا کرتی تھیں لیکن اب پینے، فصلوں اور مویشیوں کے لئے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہے جس کی وجہ سے نقل مکانی کا تناسب بھی کم ہوا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چھوٹے ڈیموں نے کامیابی سے تین اہم مقاصد حاصل کئے ہیں۔  مقامی لوگوں کی نقل مکانی کو نمایاں سطح پر کم کرنے میں مدد ملی ہے۔  (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سکندر علی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
دوسرا اِن چھوٹے ڈیموں سے زیر زمین پانی کی سطح جو بلند ہوئی ہے اور تیسرا یہ کہ چھوٹے ڈیمز کی وجہ سے غربت کے خاتمے میں بھی مدد مل رہی ہے کیونکہ زراعت کی ترقی کی صورت مقامی افراد کو روزگار کا پائیدار اور منافع بخش ذریعہ ہاتھ آیا ہے۔ ”نگرپارکر“ کے صحرا اور دیگر جگہوں سے چھوٹے ڈیموں کی کامیابی کی یہ  کہانیاں دعوت فکروعمل ہیں کہ پاکستان کے 70فیصد بنجر اور نیم خشک علاقوں میں بھی چھوٹے ڈیم تعمیر کر کے اِن علاقوں میں رہنے والوں کی قسمت بدل دی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔