میرپورخاص میں ایک دس سالہ بچے سے ملاقات ہوئی‘ جس نے کہا کہ ”مجھے پڑھنے دو‘ مجھے بڑھنے دو“ اور یہ بنیادی طور پر ہر اُس بچے کی آواز ہے جس سے میں پاکستان میں ملا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے حکم کے طور پر اسلام میں سب سے پہلا لفظ ”اقرا“ نازل ہوا تھا۔ قابل توجہ ہے کہ اسلام کا آغاز پڑھنے کے حکم سے ہوا۔ اسلام میں تعلیم لازمی ہے۔پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد تعلیم کی ضرورت کا احساس کیا اور اسے ایک اہم ترجیح قرار دیا۔ 77 سال پہلے 1947ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ”تعلیم اور خواندگی کے میدان میں پہلی کوششوں میں سے ایک“ کے طور پر قومی تعلیمی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت محسوس کی اور اس سے متعلق ایک مطالبہ کیا تھا۔ کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ تعلیم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ریاست کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دیتے ہیں اور جس طرح سے ہم انہیں پاکستان کے مستقبل کے شہریوں کے طور پر پروان چڑھاتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمیں دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے جو تعلیم میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔سال دوہزاردس میں آئینی ترمیم کی گئی اور آرٹیکل پچیس اے متعارف کرایا گیا‘ جس کے تحت ریاست کو ”پانچ سے سولہ سال کی عمر کے
تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا“ ہے۔ عدلیہ آئین میں درج بنیادی حق کے طور پر تعلیم کی سب سے زیادہ اہمیت پر زور دے رہی ہے۔ ایسے عدالتی فیصلے موجود ہیں جو تعلیمی مساوات کے لئے عدالتی مینڈیٹ کے بارے میں واضح ہیں۔ جامع تعلیم اور سماجی انصاف‘ تعلیم کے ذریعے تبدیلی‘ منصفانہ معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں اور انہی کے ذریعے سماجی ہم آہنگی‘ انسانی وسائل کی ترقی اور پائیدار قومی سلامتی جیسے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کا ہر بچہ‘ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی‘ سکول میں ہونا چاہئے اور اُسے علم حاصل کرنا چاہئے۔پاکستان 1990ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق عالمی کنونشن کی توثیق کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک ہے‘ مذکورہ عالمی کنونشن کے آرٹیکل اٹھائیس کے تحت تعلیم کو عام کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان نے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے لئے 2030ء کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے عزم کا بھی اعادہ کر رکھا ہے‘ جس میں ایس ڈی جی فور تعلیم سے متعلق ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان بھر میں سکول جانے کی عمر کے دو کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو سکولوں کو نہیں جا رہے اور یہ تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ یعنی عالمی سطح پر سکول نہ جانے والے تمام بچوں کا دس فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی آبادی دنیا کی آبادی کا تین فیصد سے ہے اور سکول نہ جانے والوں میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔ اِسی طرح پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے اور بالخصوص معذور بچوں کے لئے تعلیمی مواقع کم ہیں۔پاکستان میں تعلیم بحران سے دوچار ہے اور اس سے جنم لینے والا بحران کئی طریقوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ عالمی بینک کے ہیومن کیپٹل انڈیکس میں پاکستان جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کا واحد طریقہ غذائیت‘ صحت کی دیکھ بھال‘ معیاری تعلیم‘ ملازمتوں اور مہارتوں کے ذریعے بچوں میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ بچوں کو بچپن ہی تعلیم کے ساتھ کھیلنے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرنا‘ انہیں غذائیت سے بھرپور غذا اور صاف پانی فراہم کرنا۔ انہیں استحصال اور بدسلوکی سے بچانا اور انہیں چائلڈ لیبر یا کم عمری میں شادی کرنے سے روکنا کچھ اہم اقدامات ہیں جو ضروری ہیں اور یہ خوشحال پاکستان جیسے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ پاکستان کئی لحاظ سے منفرد ہے: یہ ان تین ممالک میں سے ایک ہے جن کے سرکاری ریاستی عنوان میں لفظ اسلام شامل ہے۔ یہ دنیا کی تین قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جو روشن خیالی کا مرکز ہے اور یہ وراثت ہزاروں سال پر محیط ہے۔ اسلامی سنہری دور میں ہمارے پیشروؤں نے بے مثال ترقی کے دور کا آغاز کیا اور انسانی تاریخ پر انمٹ نشانات چھوڑے ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ سکول سے باہر بچوں کو واپس سکولوں میں لایا جائے۔ ہمیں تعلیم میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ منظم تدریس‘ معیاری پری پرائمری تعلیم‘ سکولوں کی تعداد میں اضافہ‘ پسماندہ بچوں اور نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر سکالرشپ دینا اور ایسے بہت سے دیگر اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ معیاری تعلیم تک عالمگیر رسائی یقینی بنانے کے لئے حکومت کو جوابدہ ہونا چاہئے اور عدلیہ کو بھی شہریوں کی فلاح و بہبود اور وقار کے فروغ میں آئینی مینڈیٹ کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کے بچوں کو تعلیم چاہئے اور یہ اُن کے بنیادی حقوق کا مقدمہ ہے۔ ہر شہری کو اپنے قرب و جوار میں ایسے بچوں کو سکولوں میں داخل کرنا چاہئے جو سکول نہیں جا رہے۔ اِسی سے خوشحال پاکستان کی تعمیر کا آغاز ہو گا جو ہم سب دیکھنا چاہتے ہیں۔ (مضمون نگار پاکستان میں تعینات ’یونیسیف‘ کے نمائندہ ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبداللہ فادل۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)