تخمینہ جات کے مطابق گزشتہ سال وفاقی بجٹ کا خسارہ تیرہ کھرب روپے سے کم کر کے گیارہ کھرب روپے کر دیا گیا۔ بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے پانچ سے چھ فیصد تک محدود کرنے اور چوبیسویں آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط و ضروریات پورا کرنے کے لئے پرائمری سرپلس حاصل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ملک کا قرض جی ڈی پی کا تقریباً 80فیصد تک جا پہنچا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے اور اس معاشی پریشانی کو وقتی طور پر ٹالنے کے لئے دوست ممالک سے قرضے لئے گئے ہیں اور معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور رواں دواں رکھنے کے لئے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگراموں سے مدد لی جا رہی ہے۔ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن نے ایک بار کہا تھا کہ ”ہماری قوم کے مسائل کا آسان حل موجود ہے لیکن یہ حل زیادہ آسان نہیں ہے۔“ بہت سے ماہرین نے حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن بڑے مالی خسارے کو کم کرنے کے لئے تاحال کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ہماری حکومتوں (وفاقی اور صوبائی دونوں) کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ جوں کا توں برقرار رکھنے کی ذہنیت اور نئے تجربات یا طریقوں کو آزمانا ہے جن کی کامیابی کے لئے درکار سیاسی عزم کا فقدان پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً اصلاحات کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی لیکن کوئی قابل ذکر (غیرمعمولی) عملی پیش رفت
دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان کے ساتھ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہر سطح پر ناقص گورننس کا ہے‘ جو اچھی فیصلہ سازی‘ مناسب میکرو اکنامک پالیسیوں کو اپنانے اور ان کے نفاذ میں کمزوری کا مجموعہ ہے۔ گورننس کا انحصار آمدنی و اختیارات کے لحاظ سے بااثر طبقات پر ہوتا ہے لہٰذا جب تک فیصلہ سازی کے عمل میں ماہرین کو شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک گورننس بہتر نہیں ہو گی اور جب تک گورننس بہتر نہیں ہوتی اس وقت تک نمایاں معاشی بہتری کا امکان بھی نہیں ہے۔ بجٹ خسارے کو کم کرنے میں حائل سب سے بڑا مسئلہ غیر پیداواری اخراجات ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کی معیشت کا موازنہ کرتے ہیں تو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب تقریباً گیارہ فیصد معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا مسئلہ بھاری اخراجات بھی ہیں‘ بنگلہ دیش میں تقریباً پندرہ فیصد کے مقابلے میں جی ڈی پی کے مقابلے میں سرکاری اخراجات کا تناسب بائیس فیصد سے زیادہ ہے‘ جس سے مالی خسارہ دس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے پاس بہت ساری وزارتیں‘ محکمے اور سرکاری ایجنسیاں بہت زیادہ لوگوں سے بھری ہوئی ہیں‘ جس کے نتیجے میں مفید نتائج پیدا کئے بغیر وقت اور وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ حکومتوں کے حجم میں کمی کرنے کی ضرورت ہے اور وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر کم از کم ایک تہائی وزارتوں‘ محکموں اور ایجنسیوں کو بند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اٹھارہویں آئینی ترمیم اور سال دوہزاردس میں اعلان کردہ ساتویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے بعد اہم کام یہ بنتاہے کہ زیادہ وسائل وفاقی حکومت سے صوبوں کو منتقل کئے جائیں۔ اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت میں کم از کم پندرہ وزارتوں کو فی الفور بند کر دینا چاہئے تھا۔ اس بات کو وزیر خزانہ نے چند ماہ قبل عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں تسلیم بھی کیا تھا۔ اسی طرح سال دوہزار دس میں این ایف سی کے تحت صوبوں کو منتقل کئے گئے فنڈز تعلیم‘ صحت‘ آبادی کی منصوبہ بندی‘ زراعت اور دیگر شعبوں میں نتائج کو بہتر بنائے بغیر بڑے پیمانے پر ضائع ہوئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر مؤثر احتساب اور نتائج پر مبنی حکمرانی کی ضرورت ہے۔ بجٹ میں سب سے بڑا خرچ (محصولات کا تقریباً 80 فیصد) بھاری سرکاری قرضوں کے جمع ہونے اور افراط زر پر قابو پانے کے لئے اسٹیٹ بینک کی جانب سے مقرر کردہ بلند شرح سود ہے جس کی وجہ سے قرضوں کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ بلند شرح سود مالی خسارے میں بھی
اضافے کا باعث بنتی ہے کیونکہ اس سے سرکاری اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور حکومت بینکوں سے سب سے زیادہ قرض لینے لگتی ہے۔ پاکستان کے قومی وسائل ضائع ہونے کا ایک اور بڑا شعبہ توانائی کا ہے جہاں سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر گردشی قرضے اور واجبات قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ توانائی کی لاگت کم کرنے‘ سرکاری سبسڈیز میں کمی اور ایس او ایز کی گورننس اور مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لئے نجکاری اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح حکومتی آمدنی (ریونیو) میں اضافے کے لئے اہم اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ایف بی آر اور صوبائی ریونیو محکموں کی گورننس کو بہتر بنایا جا سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایف بی آر کا ایک آزاد پالیسی بورڈ قائم کیا جائے جو پالیسی اور نگرانی کا ذمہ دار ہو تاکہ ایف بی آر کی آزادانہ پالیسی سازی‘ موثر نگرانی اور احتساب کو یقینی بنایا جا سکے۔ قوانین اور طریقہ کار کو آسان بنانے‘ ٹیکس کی شرحوں کو کم کرنے اور نظام کو منصفانہ بنانے کے ذریعے ٹیکس کے نظام کی تنظیم نو کی بھی شدید ضرورت ہے۔ ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافہ معیشت اور ٹیکس وصولی دونوں کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ معیشت کا گلہ گھونٹ کر ٹیکس وصولی میں اضافہ کسی بھی صورت دانشمندی نہیں ہو گی۔ (یہ مضمون بجٹ سے ایک روز پہلے کا ہے‘ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سیّد اسد علی شاہ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)