غزہ: جنگ بندی کا مستقبل؟

اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ 9 ماہ سے غزہ میں جاری نسل کشی پر دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ حال ہی میں اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اِس صورتحال کا نوٹس لیا ہے اور جنگ بندی سے متعلق ایک قرارداد کی توثیق کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی جارحیت ختم کی جائے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی تجاویز کی حمایت میں منظور کیا جانے والا تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی سے متعلق مذکورہ منصوبہ جس کے حق میں رکنی سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین نے ووٹ دیا جبکہ اس موقع پر روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ ان اراکین نے ’فوری طور پر جنگ بندی کی شرائط لاگو کرنے‘ کا مطالبہ کیا ہے اور مذکورہ قرارداد کی پاسداری کے سبھی فریق پابند ہیں۔غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد سے سلامتی کونسل تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے اور اکتوبر 2023ء سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ غزہ پر مسلط جنگ کیسے ختم کی جائے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب سلامتی کونسل نے فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا جوکہ اسرائیل کی جارحانہ زمینی اور فضائی کاروائیوں کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ اس سے قبل سلامتی کونسل نے رمضان المبارک کے مہینے میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا لیکن تب بھی اسرائیل نے جنگ بندی کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی گزشتہ قراردادوں میں امریکہ نے ویٹو کیا اور جو بائیڈن انتظامیہ (امریکی حکومت نے) فلسطینیوں کی نسل کشی میں مکمل طور پر اسرائیل کا ساتھ دیا جو اب بھی مختلف انداز سے جاری ہے البتہ امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ بہت دیر سے سامنے آیا ہے کیونکہ کم  و بیش 38 ہزار مظلوم فلسطینی اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ غزہ کی 80فیصد عمارتیں مکمل طور پر تباہ اور باقی ماندہ ناکارہ ہوچکی ہیں لیکن اس سب کے باوجود یہ قرارداد نسل کشی کے خاتمے کے لئے امید کی کرن ہے اور اِس پر عمل درآمد میں ابہام پایا جاتا ہے اور اِسے غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جانب پیش قدمی کے معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔غزہ کی صورتحال پر غور کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ایک ہفتے جاری رہا جس کے بعد جنگ بندی سے متعلق قرارداد کو حتمی شکل دی گئی۔ چند اراکین کی جانب سے متن میں استعمال کی گئی زبان پر تحفظات سامنے آیا۔ اس موقع پر چین نے کہا کہ وہ قرارداد کی حمایت کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ جنگ ختم ہو اور یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے۔ اقوامِ متحدہ میں چینی مندوب نے کہا کہ ”ہمیں اب بھی خدشات ہیں کہ آیا فریقین جنگ بندی کی شرائط کو قبول کریں گے یا نہیں اور اس قرارداد پر آسانی سے عمل درآمد ممکن ہوگا یا نہیں۔‘ جنگ بندی کے متعلقہ منصوبے میں پہلا مرحلہ ابتدائی چھ ماہ کی جنگ بندی کی تجویز پیش کرتا ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی‘ غزہ کے گنجان علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا ء اور بیدخل فلسطینیوں کی اپنے علاقوں میں واپسی شامل ہے۔ اس کے لئے ’غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے‘ پر انسانی امداد کی تقسیم کی ضرورت ہے۔ جنگ بندی منصوبے کے تحت دوسرے مرحلے میں دونوں فریقین کے درمیان ’دشمنی کے مستقل خاتمے‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ ’غزہ میں اب تک موجود تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کے بدلے میں‘ ہوگا۔ تیسرا مرحلہ ’غزہ کے لئے تعمیر نو سے متعلق ہے اور اِس میں ہلاک یرغمالیوں کی باقیات جو اب بھی غزہ میں موجود ہیں‘ انہیں اسرائیل میں ان کے خاندانوں کو واپس کرنے‘ کو شامل کیا گیا ہے۔ قرارداد یہ بھی کہتی ہے کہ پہلے مرحلے کے لئے مذاکرات میں چھ ہفتوں سے زائد کا وقت لگے تب بھی’جنگ بندی جاری رہے گی اور مذاکرات عمل بھی جاری رہنا چاہئے۔‘ سب سے اہم قرارداد ان تمام کوششوں کو رد کرتی ہے جو غزہ کی زمین یا آبادی کو تبدیل یا اس کے رقبے کو کم کرنے سے متعلق ہو۔ اس قرارداد کے ذریعے سلامتی کونسل نے ’مذاکرات کے ذریعے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے نظریہ کو اجاگر کیا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ بھی ہے۔  اہم سوال یہ ہے کہ تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا منصوبہ جسے اقوامِ متحدہ کے طاقتور ترین رکن کی سرپرستی حاصل ہے‘ کیا اسرائیل اس پر من و عن عملدرآمد کرنے پر رضامند ہوگا؟ حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کئے بغیر مستقل جنگ بندی نہیں ہوسکتی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زاہد حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 اسرائیل جنگ بندی سے مسلسل انکار کر رہا ہے اور اپنی اِس ہٹ دھرمی کی وجہ سے عالمی برادری میں تنہائی کا شکار بھی ہورہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فلسطین میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد امن کی ضامن ہو سکتی ہے لیکن صہیونی عزائم لئے اسرائیل انسانی جرائم کے ارتکاب سے ہاتھ کھینچنے کے لئے تیار نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ  امریکہ جو کہ اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی ہے‘ وہ اسرائیل کی حمایت کس حد تک جاری رکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔