معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی پر زیادہ توجہ دی جائے‘ ٹیکسوں پر نہیں‘ اِس سلسلے میں ویت نام نامی ملک کی مثال پیش کی جاتی ہے جہاں کاروباری طبقے پر عائد محصول (کارپوریٹ ٹیکس) کی شرح بیس فیصد ہے اور دیگر طبقات پر عائد ٹیکس کی شرح دس فیصد سے کم ہے‘ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ویت نام میں سرمایہ کاری کے حساب سے ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ ہائی ٹیک انٹرپرائزز یا اقتصادی زونز میں کام کرنے والوں کو ٹیکس سے چھوٹ دی جاتی ہے جس سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ویت نام ٹیکس چھوٹ اور مراعات کے ذریعے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کر رہا ہے۔ ترقی پر مبنی یہ نقطہ نظر کامیاب ہے اور ایف ڈی آئی 1993ء میں ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر اٹھارہ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح روانڈا‘ کینیا‘ پیرو‘ فلپائن‘ انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ‘ ملائشیا‘ جارجیا‘ البانیہ اور آرمینیا جیسے ممالک بھی اپنی معاشی ترقی پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں نہ کہ ٹیکسوں میں اضافے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق بھی یہی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح زیادہ ہے اور یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ کوموروس‘ سوڈان‘ کیمرون‘ زیمبیا‘ جمہوری جمہوریہ کانگو‘ زمبابوے‘ سورینام‘ چاڈ‘ استوائی گنی‘ کیوبا اور گنی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ سب وہ ممالک ہیں جو ترقی پر نہیں بلکہ ٹیکسوں پر توجہ دیتے ہیں۔ پچاس فیصد کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کے ساتھ کوموروس دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے والا ملک ہے۔ سال دوہزارگیارہ میں کوموروس کو 23 ملین ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری موصول ہوئی جو سال 2022ء میں کم ہو کر 3.8 ملین ڈالر رہ گئی۔ پاکستان میں 29 فیصد کے تناسب سے سٹینڈرڈ ٹیکس عائد ہے اس کے علاؤہ پچاس کروڑ روپے یا اس سے زائد آمدن والی کمپنیوں پر دس فیصد سپر ٹیکس‘ دو فیصد ورکرز ویلفیئر فنڈ‘ پانچ فیصد ورکرز پارٹنرشپ فنڈ اور پچیس فیصد تک ڈیویڈنڈ پر ٹیکس لگا ہوا ہے۔ پاکستان میں بینکنگ کمپنیوں پر بھی ٹیکس کا بوجھ ہے جو پچاس فیصد سے کچھ کم ہے۔ تصور کریں کہ دنیا بھر میں 181ممالک میں کارپوریٹ انکم ٹیکس کی اوسط شرح 23 فیصد ہے۔ جبکہ پاکستان میں معیاری ٹیکس کی شرح 39 فیصد ہے۔بنگلہ دیش کی مثال بھی موجود ہے جو معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے‘ ٹیکسوں پر نہیں۔ معیاری کارپوریٹ ٹیکس 27.5 فیصد ہے اور عوامی کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے لئے یہ شرح 25 فیصد ہے۔ بھارت میں یہ کارپوریٹ ٹیکس شرح پچیس سے تیس فیصد کے درمیان ہے۔ 1980ء میں عالمی سطح پر کارپوریٹ ٹیکس کی شرح اوسطاً چالیس فیصد تھی۔ تب سے‘ ممالک نے کاروباری سرمایہ کاری کے فیصلوں پر کارپوریٹ ٹیکس کی اعلیٰ شرحوں کے اثرات کو تسلیم کیا ہے۔ سال دوہزارتیئس میں یہ اوسط تیئس فیصد تک گر گئی تھی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جب دنیا میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کم ہے تو پاکستان زیادہ ٹیکس عائد کر کے مخالف سمت میں کیوں اور کہاں جا رہا ہے؟بین الاقوامی تحقیقی ادارے (تھنک ٹینک ٹیکس فاؤنڈیشن) نے ایک معاشی ترقی کا ماڈل تیار کیا ہے جس میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ ٹیکس کی شرحوں میں تبدیلی معیشت کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔ ان کے ماڈل کے مطابق وفاقی کارپوریٹ ٹیکس کی شرح پینتیس فیصدی سے کم کرکے پچیس فیصد کرنے سے ملک کی جی ڈی پی میں 2.2 فیصد اضافہ ہوگا‘ کاروباری اداروں کی سرمایہ کاری کی رقم میں 6.2فیصد اضافہ ہوگا اور اجرتوں میں 1.9فیصد اضافہ ہوگا۔ جی ہاں‘ وفاقی کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو35فیصد سے کم کرکے پچیس فیصد کرنے سے مجموعی وفاقی محصولات میں صفر اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوگا۔کارپوریٹ ٹیکس کی شرح اور ایف ڈی آئی کے درمیان منفی تعلق ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ کم کارپوریٹ ٹیکس کی شرح والے ممالک زیادہ ایف ڈی آئی حاصل کرتے ہیں۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کارپوریٹ آمدنی پر ٹیکس معاشی ترقی کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ او ای سی ڈی کے اندر‘ پرتگال‘ اکتیس فیصد کے ساتھ‘ کارپوریٹ ٹیکس کی دوسری سب سے بڑی شرح ہے‘ جو ملک میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کے لئے ایک اہم رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ تصور کریں کہ پاکستان میں یہ شرح اُنتالیس فیصد اور کئی صورتوں میں اِس سے بھی زیادہ ہے۔سوال: کارپوریٹ ٹیکس کی زیادہ تر لاگت کون برداشت کرتا ہے؟ جواب: کارپوریٹ ٹیکس کی بلند شرح کے حقیقی اور منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں‘ کمپنیاں قیمتوں میں اضافہ کرکے یا کم کارکنوں کو بھرتی کرکے اعلیٰ کارپوریٹ ٹیکسوں پر رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔ کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ صارفین اور مزدور کارپوریٹ انکم ٹیکس کا تقریباً سارا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس معاشی سرگرمی کا نتیجہ (ردعمل) ہوتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت معاشی سرگرمیوں کا فروغ چاہتی ہے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی ترقی زیادہ ٹیکس محصولات میں تبدیل ہوسکتی گی۔ پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس کی بلند شرح سرمایہ کاری اور معاشی ترقی دونوں کو دبائے ہوئے ہے۔ پاکستان کو کارپوریٹ ٹیکس اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ٹیکسوں کی بجائے معاشی ترقی پر توجہ دینی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ناقابل فراموش شہادت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام