پاکستان نے پرامن بقائے باہمی کے اصول پر مبنی حکمت عملی (پالیسی) اپنا رکھی ہے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات اور تعاون کا تسلسل دکھائی دے رہا ہے۔ پرامن ہمسائیگی کے ساتھ پاکستان خطے میں امن کا قیام بھی چاہتا ہے اور اس مقصد و ہدف کے حصول کی کوششیں جاری ہیں۔ پرامن بقائے باہمی کی اپنی پالیسی کے تحت اسلام آباد نے بھارت کے ساتھ زیر التوا تنازعات کے حل کے لئے بات چیت شروع کرنے کے لئے متعدد بار دعوے کئے تاہم‘ پاکستان کے بارے میں نئی دہلی کا مؤقف سخت اور غیر لچکدار رہا ہے۔ بھارت نے بارہا پاکستان کو مبینہ طور پر سرحد پار دہشت گردی سے جوڑا جبکہ خود پاکستان کے اندر ماورائے عدالت قتل جاری رکھے ہوئے ہے۔ نئی دہلی نے ایف اے ٹی ایف جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کو نقصان پہنچاتے ہوئے اسے تنہا کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ گزشتہ سال مئی میں جب پاکستانی وزیر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے تیرہ سال بعد بھارت کا دورہ کیا تو اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ سخت الفاظ میں بات کی۔ اسلام آباد اور نئی دہلی کی حکومتوں کی جانب سے پاک بھارت تعلقات کو ایک نیا تناظر دینے اور دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی امیدیں اب اور بھی کم ہو گئی ہیں۔ بھارتی رہنماؤں کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کی بار بار دھمکیاں اور بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کو کرتار پور میں تبدیل کرنے جیسی بے سروپا تجاویز اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہیں۔ بدقسمتی سے بھارت پاکستان میں دہشت گردی ختم نہیں کر رہا اور جب تک بھارت کی پاکستان میں مداخلت ختم نہیں ہوتی اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بھی معمول پر نہیں آئیں گے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام آباد بھارت کے بارے میں اس وقت تک زیادہ
سخت مؤقف اختیار کرے جب تک بھارت کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے عزائم برقرار رہتے ہیں۔ ایک پرامن ہمسائیگی صرف ایک پرامن خطے کے لئے کام کرنے کے باہمی تعمیری ارادوں کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ پاکستان کے مغربی ہمسایہ ملک افغانستان کی بات آتی ہے تو بھی یہی صورتحال ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی کو چیلنج کر رہا ہے۔ پاکستان چار دہائیوں سے زائد عرصے سے افغانستان سے آنے والے چالیس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ اگست دوہزاراکیس میں امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد سے پاکستان نے طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کی بھرپور وکالت کی۔ چین کے ساتھ ساتھ پاکستان نے افغانستان کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور گوادر پورٹ کے ساتھ رابطے کی بھی پیش کش کر رکھی ہے تاہم ان اقدامات کا جواب ایسے انداز میں دیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت علاقائی امن و استحکام کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام نہیں کرنا چاہتی۔ افغانستان نے پاکستان کے کردار کو مسلسل نظر انداز کیا ہے اور اس کے بجائے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر افغانستان سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے معاملے سے نمٹنے کے لئے افغان حکومت سے تعاون بھی مانگا‘ جسے افغان طالبان نے دوحا مذاکرات کے دوران روکنے کا وعدہ کیا تھا لیکن افغان حکومت کے پاکستان مخالف دہشت گرد
گروہوں سے قربت برقرار ہے۔ کابل ان گروہوں کو سودے بازی کی چپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہ اقدام طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ کو بھی ظاہر کر رہا ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد کو کھلا رکھا ہوا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی دراندازی کو روکنے کے لئے افغانستان کے ساتھ سرحدیں بند کر دی جائیں اور مجبوراً غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو ملک بدر کرنے جیسے سخت اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان نے کابل اور نئی دہلی دونوں کے ساتھ تعاون پر مبنی تعلقات برقرار رکھنے کی مسلسل کوشش کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں ممالک نے مسلسل پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا ہے۔ درحقیقت‘ پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لئے پراکسیوں کی مالی اعانت‘ حمایت اور تربیت سمیت مختلف ذرائع سے پاکستان کو داخلی طور پر غیرمستحکم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ صورتحال متقاضی ہے کہ پاکستان اپنے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والے کسی بھی ملک کے خلاف زیادہ سخت اور انتہائی مضبوط مؤقف اختیار کرے جو اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ پاکستان کو مشرقی‘ مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان سماجی و اقتصادی ترقی اور علاقائی رابطوں جیسے وسیع امکانات کا خیر مقدم کرنا چاہئے لیکن اسے داخلی یا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام یا غیر مستحکم کرنے کی کسی بھی مذموم کوشش کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ ان ہمسایوں نے پاکستان کے لئے جو حالات پیدا کئے ہیں وہ اس کے داخلی امن و استحکام کے ساتھ علاقائی امن و استحکام کے لئے بھی نقصان دہ اور خطرناک ہیں۔ پرامن ہمسائیگی کے لئے جن اجتماعی کوششوں اور نیک نیتی کی ضرورت ہوتی ہے وہ صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ ابوالحسن امام)