اسرائیل وسطی غزہ میں تعلیمی اداروں اور رہائشی علاقوں جیسے شہری اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے جبکہ اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس اور اسلامی جہاد کے جنگجوؤں کے خلاف کامیابیاں حاصل کر رہا ہے جبکہ اِس دعوے کی تردید کی گئی ہے۔ اسرائیل کے جنگی جنون کا نشانہ بننے والوں میں خواتین‘ بچے اور بزرگ شامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر غزہ میں جاری نسل کشی کی مذمت ہو رہی ہے۔اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک میں امریکہ پیش پیش ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن‘ جن کا ”امن منصوبہ“ اپنے ”دوست ملک“ کو بچانے کے لئے پیش کیا گیا‘ اُس کا بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا اور تجزیہ کاروں کی اکثریت کہہ رہی ہے کہ یہ امن منصوبہ دم توڑ چکا ہیجبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ غزہ پر مزید حملے روکتے ہوئے اسرائیل کو جنگی جنون جیسے پاگل پن سے باز رکھا جائے۔ افسوسناک ہے کہ حالیہ چند ماہ میں اسرائیل کے حملوں سے ہوئی ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے!غزہ پر جنگ مسلط ہے اُور حالات جوں کے توں ہیں۔ اس قتل عام کے محرکات بہت سیدھے ہیں۔ یہاں تک کہ مغرب کا وہ حصہ جو اسرائیل کے روایتی اتحادی ہیں‘ نسل کشی کے اقدام سے مکمل طور پر متفق نہیں اور تسلیم کرتا ہے کہ یہودی ریاست انسانی تاریخ کے انتہائی ناقابل تصور مظالم کی صورت جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے‘ وہ اسے روکنا چاہتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ یہ اس وقت تک رکنے والا نہیں ہے جب تک کہ امریکہ کی جانب سے اُسے ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا۔ اس لئے اب امریکہ واحد ایسی عالمی طاقت اور اثر و رسوخ رکھنے والا ملک بن گیا ہے جو اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی پٹی میں جو کچھ بچا ہے اُسے بچا سکتا ہے۔ اگر امریکہ ایسا نہیں کرتا تو تاریخ اُسے بھی غزہ کی نسل کشی میں نہ صرف شریک بلکہ اِس کا ذمہ دار قرار دے گی جو کہ حقیقت بھی ہے اور امریکہ کبھی بھی ایسا نہیں چاہے گا کہ بیگناہ فلسطینوں کے خون سے اُس کا دامن داغدار ہو۔اسرائیل کے تمام تر جنگی جرائم کے باوجود‘ امریکی حکومت (جو بائیڈن انتظامیہ) نے اسرائیلی وزیراعظم کو کانگریس کے اجلاس سے خطاب کے لئے واشنگٹن مدعو کیا ہے جو درحقیقت صرف فلسطینی نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف عمل ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیس نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ 8 مہینوں کے دوران نہ صرف فلسطینیوں کو قتل کیا گیا ہے بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں فلسطینیوں کو ”نامعلوم حراستی مراکز“ میں قیدی بنا کر رکھا گیا ہے جہاں اُن پر خوفناک تشدد کیا جاتا ہے اور قیدیوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے اِن اقدامات کی سرعام مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ قیدیوں سے روا رکھے جانے والے اسرائیلی ناروا سلوک کو روکنے میں کردار ادا کرے۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ ’بدسلوکی‘ تشدد اور قتل و غارت گری‘ کا سلسلہ نصف صدی سے زائد عرصے سے جاری ہے اور اگرچہ دنیا اسرائیلی حکمرانوں کی مذمت کر رہی ہے لیکن فلسطینیوں کے لئے تلخ حقائق تبدیل نہیں ہو رہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ سے عیاں ہے کہ اسرائیل تن تنہا فلسطینوں پر جنگ مسلط نہیں کئے ہوئے بلکہ اِس جرم میں اُس کے اتحادی و حمایتی ممالک بھی شریک ہیں۔ اقوام متحدہ فلسطین مسئلے کا دو ریاستی تجویز کر چکا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں پہلے اقدام کے طور پر اسرائیل کو ہر قسم کے اسلحے کی فروخت یا فراہمی پر پابندی عائد ہونی چاہئے کیونکہ جب تک اسرائیل کی مالی و دفاعی مدد جاری رہے گی اُس کے مظالم کا سلسلہ بھی طول پکڑتا رہے گا جس میں فلسطینیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل ہے۔ قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ اب تک اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے جنگی مقاصد و عزائم سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کیا۔ حماس ختم نہیں کی جا سکی بلکہ اطلاعات کے مطابق حماس کی تحریک پھر سے ابھر رہی ہے اور یہ پہلے سے زیادہ منظم بھی ہو رہی ہے۔ حماس کی مقبولیت کی وجہ اسرائیلی مظالم ہی ہیں۔ جن بے گناہ افراد کو اسرائیل نے صفحہئ ہستی سے مٹایا آج اُنہی کے عزیزواقارب اسرائیل کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کے لئے حماس و دیگر مزاحمتی عسکری تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ مرحلہ انتہائی نازک ہے اور امریکہ کو اِس کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عالم ایوب۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
امریکہ کے سبھی بڑے شہروں میں ہر ہفتے اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں مظاہرے معمول بن گئے ہیں یہاں تک کہ امریکہ کے تعلیمی اداروں میں جہاں اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر پابندی عائد ہے لیکن طلبہ اور اساتذہ فلسطین کی حمایت کر کے دنیا کو تہذیب اور انسانیت کی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ امریکہ کو عالمی سطح پر اُٹھنے والی آوازوں‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں‘ رپورٹوں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تباہی و بربادی کی تصاویر اُور دل ہلا دینے والی تصاویر اور دیگر نشریاتی مواد کا جائزہ لیتے ہوئے ’عالمی برادری‘ کی بات سننا چاہئے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو صدر امریکہ (جو بائیڈن) کی بات نہیں سن رہے لیکن یہ درست نہیں اور درحقیقت امریکہ کے تجاہل عارفانہ کی وجہ سے دنیا ایک زیادہ وسیع اور بڑی جنگ کے دہانے پر آ پہنچی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو مجرم قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اُن کے خلاف عالمی پابندیاں لگائی جائیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا تو اِس سے صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ امریکہ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔