ہنرمند نوجوان: خوشحال پاکستان

عالمی سطح پر ہنرمندی سے متعلق حالیہ سالانہ (گلوبل سکلز رپورٹ) دستاویز میں ایک سو ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ہنرمندی سے متعلق زمینی حقائق کا احاطہ کیا گیا ہے اور اِس عالمی مہارت سے متعلق تحقیق کے مطابق ایک سو ممالک کی فہرست میں پاکستان 92ویں نمبر پر ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ نوجوانوں کو خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی جبکہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہنرمند نوجوان ہی کسی قوم کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔ سال دوہزارچوبیس سے متعلق رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی میں کچھ بہتری نظر آ رہی ہے اور پاکستان 92 درجے سے 84ویں درجے پر آ گیا ہے لیکن اگر علاقائی ممالک سے پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو صورتحال زیادہ سنگین دکھائی دیتی ہے۔ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں پاکستان تیئس ممالک میں سے پندرہویں نمبر پر ہے۔ اسے عالمی اور علاقائی سطح پر چار ممکنہ زمروں میں سب سے کم درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔ مہارتوں کی یہ درجہ بندی تین شعبوں سے متعلق ہے۔ اِس میں چھوٹا بڑا کاروبار‘ ٹیکنالوجی اور ڈیٹا سائنس کے شعبوں کو دیکھا گیا ہے‘ جن کی عالمی سطح پر قدر ہے اور ترقی یافتہ ممالک اِن شعبوں کے ماہرین کو خصوصی ویزوں کے ذریعے اپنے ممالک کی طرف راغب کر رہے ہیں۔پاکستان میں ہنرمندی کی بجائے تعلیم کو صرف ڈگریاں حاصل کرنے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن آج کی تیز رفتار ترقی میں ہنرمندی کو زیادہ وقعت ملنی چاہئے۔ عموماً چند مخصوص شعبوں میں تعلیم دینے کی وجہ سے تعلیم و تربیت اور ہنرمندی میں خلاء پیدا ہوا ہے جو صرف ڈگری پروگرام کے ذریعے تلافی نہیں ہو سکتی۔ نوجوانوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ بنا محنت اُنہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ کسی علم کو حاصل کر لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس میں گھنٹوں مشق کرنے اور اہم تجربہ حاصل کئے بغیر‘ حاصل مہارت کی وقعت کم ہوسکتی ہے۔ ایم او او سیز میں عالمی دلچسپی سے متاثر ہو کر پاکستان کی متعدد یونیورسٹیاں اب اپنے آن لائن مائیکرو کریڈینشل کورسز پیش کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ یہ کوشش جزوی طور پر ان کی پہنچ میں اضافے اور زیادہ اچھا کام کرنے کی خواہش اور موجودہ وسائل کے ساتھ آمدنی کی خواہش سے متاثر ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرٹیفکیشن کورسز وسیع ایکریڈیٹیشن کے عمل کے تابع نہیں اور ایچ ای سی کو لوپ میں رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اس آپشن کو تلاش کرنے کے لئے مزید حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔پاکستان کی سرکاری و نجی جامعات کو سرجوڑ کر سوچنا چاہئے اور ایسے کورسز متعارف کروانے چاہیئں جن سے تعلیم کے ساتھ ہنرمندی بھی حاصل ہو۔ اِس سلسلے میں ترقی یافتہ اور خطے کے ممالک کے تجربات کی روشنی یا علاقائی تعاون کی بنیاد پر تعلیم و ہنرمندی کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔اس سے پہلے کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی ایم او او سیز کا پورٹ فولیو تیار کرنے میں وسائل خرچ کرنے کا فیصلہ کرے‘ انہیں ایمانداری سے اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ کتنے طالب علم دنیا بھر کی بہترین یونیورسٹیوں کے مقابلے میں اپنے ایم او او سیز کا انتخاب کریں گے اور کیوں؟ ہماری مقامی یونیورسٹیوں کے ذریعہ پیش کردہ ایم او او سیز زبان کی رکاوٹ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور مقامی زبان میں اپنے کورسز پیش کرنا شروع کرسکتے ہیں تاہم‘ میں اس سے آگے بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ ڈگری پروگراموں کے ساتھ اعلیٰ گھریلو یونیورسٹیوں کے لئے ایک موقع ہوسکتا ہے جو یا تو بہت منتخب یا مہنگا ہونے کے لئے شہرت حاصل کرتے ہیں۔ آخر میں‘ اگرچہ ایم او او سیز کا عروج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیکھنے والوں کے لئے بے مثال مواقع فراہم کرتا ہے لیکن موجودہ منظر نامہ اہم چیلنجوں اور حدود کو اجاگر کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر مہارتوں کی اِس درجہ بندی میں پاکستان کی بتدریج بہتری حوصلہ افزأ کارکردگی قابل بیان تو ہے لیکن اِسے ضرورت کو دیکھتے ہوئے کافی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی بھی علم یا عملی شعبے میں مہارت‘ خاص طور پر تکنیکی مہارتوں کی وجہ سے بہت کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔ ’ایم او او سی‘ کے شعبے میں قدم رکھنے پر غور کرنے والی پاکستانی یونیورسٹیوں کے لئے یہ اقدام انتہائی ضروری ہے کہ وہ معروف عالمی اداروں کے زیر اثر چیلنجز کو تسلیم کریں اور اِن کا مقابلہ کرنے کے لئے طلبہ کو تیار کریں۔ مقامی ایم او او سیز کی ممکنہ کامیابی کا انحصار منفرد خصوصیات جیسا کہ مقامی زبان کی پیشکشوں اور پاکستان کے اندر ان کی ساکھ کو بڑھانے پر ہوسکتا ہے تاہم‘ پاکستان میں علمی یا فنی تربیت اور تجربے کو عالمی معیار کے مطابق اور اُس سے مربوط ہونا چاہئے۔’ایم او او سیز‘ کو پاکستان کے تعلیمی فریم ورک میں ضم کرنے کے لئے اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ فنی تربیت کے مواقعوں اور امکانات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تعلیم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ طلبہ کو سمجھنا ہوگا کہ اُن کے تعلیم چند برس پر محیط عمل نہیں رہی بلکہ یہ ایک تاحیات سانچے میں ڈھل گئی ہے اور تعلیم کو فروغ دیئے بغیر کوئی  بھی تجربہ اور مہارت کافی نہیں ہو سکتے۔ اِسی طرح بنا تجربے اور مہارت بھی تعلیم سودمند نہیں ہو سکتی۔ عالمی معیشت کے ابھرتے ہوئے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو نوجوان افرادی قوت کو بہتر طور پر تیار کرنے کے لئے قومی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)