پاکستان نے لندن میں 114 سے زائد ممالک کے وزرائے تعلیم اور ماہرین کے سالانہ اجلاس ایجوکیشن ورلڈ فورم میں شرکت کی تھی۔ مذکورہ کانفرنس کا موضوع تھا کہ ”جدید دور کے چیلنجوں سے اچھی طرح ہم آہنگ کیسے ہوا جائے۔“ حالیہ چند برسوں میں‘ مصنوعی ذہانت کی آمد کے ساتھ‘ تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں اور یہی وجہ تھی کہ بحث کے لئے یہ موضوع انتہائی مناسب تھا‘ خاص طور پر اس بارے میں کہ تعلیم میں مصنوعی ذہانت کو کیسے متعارف کرایا جائے۔ تین دیگر موضوعات کا بھی جائزہ لیا گیا جن میں انسانی تعلقات کو سمجھنا اور اُن کے تعمیری پہلوؤں کے بارے میں غور شامل تھا۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے جڑے چیلنجوں کے بارے میں کاروائی (عملی اقدامات) کو کس طرح تیز کیا جائے اور کس طرح ایک حسب حال تعلیم نظام وضع کیا جائے یہ سبھی موضوعات مذکورہ کانفرنس میں زیربحث آئے۔مصنوعی ذہانت کی اہمیت قائم اپنی جگہ ہے اور اسے عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا جا رہا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ پاکستان میں سرکاری تعلیمی ادارے اِس انقلابی ٹیکنالوجی سے کس طرح اور کب زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت کا مؤثر اور اخلاقی استعمال تدریس اور سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے کے علاؤہ اساتذہ اور طلبہ کے لئے متعدد بہترین فوائد پیش کرنے میں مدد کرتا ہے۔ خاص طور پر‘ مصنوعی ذہانت اساتذہ کو اسباق کی منصوبہ بندی اور دیگر تدریسی مواد تیار کرنے میں مدد کرتی ہے۔ بدقسمتی سے‘ پاکستان میں ہر درجے کے تعلیمی ادارے مصنوعی ذہانت کے ذریعے خواندگی جیسے امکان سے استفادہ نہں کر رہے بلکہ صورتحال اِس حد تک سنگین ہے کہ مصنوعی ذہانت کو فروغ دینا تو دور کی بات‘ طلبہ روایتی خواندگی کی مہارتوں سے مؤثر طریقے سے لیس بھی نہیں کیا جا رہا۔ ناقص تعلیمی انفراسٹرکچر سے لے کر اساتذہ کے ناقص معیار تک‘ تعلیم کے بارے میں بلند بانگ دعوؤں کے باوجود عوامی تعلیمی نظام کو اب بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں۔مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کا نیا دور انقلابی اثرات رکھتا ہے اور اگر اِس کا دانشمندانہ اور محتاط استعمال کیا جائے تو اِس سے تعلیمی نظام پر لگی طبقاتی چھاپ بھی بڑی حد تک صاف ہو سکتی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں‘ انٹرنیٹ کا معیار مثالی نہیں اور اِس کے علاؤہ بجلی کی فراہمی بھی گھنٹوں معطل رہتی ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ جدید دور کی ٹیکنالوجیز کا کسی بھی شعبے میں استعمال کرنے کے لئے انٹرنیٹ اور بجلی کی فراہمی دو بنیادی اصول ہیں۔ دوسری اہم بات غربت ہے۔ والدین کی اکثریت کفایت شعاری سے کام لیتی ہے اور کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لئے یہ بھی ایک اور طرح کی رکاوٹ ہے کیونکہ اُن کے والدین انہیں آن لائن کورسز کے لئے اچھے گیجٹ یا سبسکرپشن خرید کر دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ معاشرے میں موجود صنفی تعصب کی وجہ سے لڑکیوں کے لئے یہ صورتحال اور بھی مشکل ہو گئی ہے۔ یہ سوچ کہ اگر لڑکیوں کو سمارٹ فونز یا ٹیبلٹس تک رسائی دی گئی تو وہ خراب ہوجائیں گی ایک تباہ کن سوچ ہے لہٰذا پالیسی سازوں کو ڈیجیٹل تقسیم کو ترجیح دینی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اصغر سومرو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
کیونکہ مستقبل میں دولت مندوں اور خاطرخواہ مالی وسائل نہ رکھنے والوں کے درمیان فرق کا انحصار ٹیکنالوجی تک رسائی پر ہوگا۔ جدید دور کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے وزرأ عالمی فورم سے حاصل ہونے والے علم کا اطلاق پاکستان میں کس طرح کرتے ہیں اور کس طرح ایک جرات مندانہ اور بہتر تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جو جدید چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔