پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پاک پی ڈبلیو ڈی) ختم کر دیا گیا ہے‘ اِس محکمے کا آغاز تقسیم ہند سے بھی پہلے دور میں ہوا تھا لیکن پاک پی ڈبلیو ڈی نے خاطرخواہ کارکردگی و صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کیا‘یہ محکمہ 77 سالہ تاریخ میں کرپشن‘ نااہلی‘ منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر‘ ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں اضافے اور ناقص تعمیرات کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیکس دہندگان کو ایک کھرب روپے سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے‘1947ءسے 2024ءکے درمیان پاکستان نے 23 وزرائے اعظم دیکھے اور اُن سب نے ’پاک پی ڈبلیو ڈی‘ کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ تین جون کو پاکستان کے چوبیسویں وزیر اعظم نے پاک پی ڈبلیو ڈی کو فوری طور پر تحلیل کرنے کا حکم دیا۔ کیا خسارے میں چلنے والے اداروں کو بند کرنے کے لئے یہ فوری اقدام بے مثال نہیں ہے؟ کیا اِس طرح کے مزید اقدامات کی بھی ضرورت نہیں ہے؟پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) جیسی کمپنی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوگی‘ سال دوہزارآٹھ سے دوہزارچوبیس کے درمیان پاکستان میں 9 وزرائے اعظم رہے جن میں یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ میر ہزار خان کھوسو‘ نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی‘ ناصر الملک‘ عمران خان‘ شہباز شریف اور انوار الحق کاکڑ شامل ہیں۔ اس عرصے کے دوران پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 73 ارب روپے سے بڑھ کر 830 ارب روپے ہو گیا۔ اوسطاً ہر وزیر اعظم اپنے دور حکومت میں 84 ارب روپے کے نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔4 مارچ کو شہباز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ 2 اپریل کو پی آئی اے کی فروخت کے لئے اظہار دلچسپی (ای او آئیز) طلب کئے گئے۔ 30 اپریل کو ایس ای سی پی نے پی آئی اے کی تنظیم نو کی منظوری دی تھی۔ 3 مئی کو پی آئی اے کے نان کور اثاثوں اور واجبات کی منتقلی کے لئے اسکیم آف انتظامات کی منظوری دی گئی۔ 17 مئی تک آٹھ کاروباری گروپوں نے اپنے ای او آئی جمع کرائے تھے۔ 3 جون کو آٹھ میں سے چھ ای او آئیز پری کوالیفائیڈ تھے۔ کیا خسارے میں چلنے والے ایس او ایز کی نجکاری کی جانب یہ رفتار بے مثال نہیں ہے؟گیارہ جولائی 1950ءکو پاکستان آئی ایم ایف کا رکن بنا۔ 1950ءسے 2024ءکے درمیان ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ چوبیس معاہدے کئے ہیں۔ 1950 سے 2024ءکے درمیان 23 وزیر اعظم رہے۔ گیارہ مئی کو وزیر اعظم شہباز شریف ایسے پہلے وزیر اعظم بنے جنہوں نے ’گھریلو اقتصادی ترقیاتی نامی منصوبہ‘ تیار کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی۔ کیا یہ ہماری اپنی معاشی حکمت عملی تیار کرنے کی جانب پیش رفت غیر معمولی نہیں ہے؟سال دوہزارگیارہ سے سال دوہزارچوبیس کے درمیان وفاقی حکومت کو چلانے کی کل لاگت 202 ارب روپے سے بڑھ کر 839 ارب روپے ہوگئی ہے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کے 9 وزرائے اعظم رہے۔ چار مارچ کو شہباز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ چودہ مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے سرکاری اخراجات کم کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کیا حکومتی اخراجات کو کم کرنے کی یہ رفتار بے مثال نہیں ہے؟موجودہ حکومت کی کارکردگی کو سمجھنے کے لئے تین نکات پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی۔ یہ تین نکات درج ذیل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اس طرح کے فیصلوں کا کوئی سابقہ واقعہ یا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے فیصلے ہمارے ملک میں معمول کے طریقوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ تیسرا یہ بات یقینی نہیں ہوتی کہ وزیر اعظم کے فیصلوں کے خاطر خواہ اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے جس سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اور مجموعی طور پر نظام میں بہتری آئے گی۔ توجہ طلب ہے کہ مختلف حکومتی ادوار میں تشکیل دی گئی کمیٹیوں کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔ شہباز شریف کا اصل امتحان یہ ہوگا کہ انہوں نے جو درست فیصلے کئے ہیں اُن پر عمل درآمد بھی ہو۔ اصلاحات کے نفاذ کے لئے تفصیلی منصوبہ بندی‘ پالیسی دستاویزات کا مسودہ تیار کرنا اور متعلقہ حکام جیسے قانون ساز اداروں یا ایگزیکٹو ایجنسیوں سے منظوری حاصل کرنا یکساں اہم و ضروری ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
مزید برآں‘ اصلاحات پر عمل درآمد سے متعلق پیش رفت کو ٹریک کرنے‘ چیلنجوں کی نشاندہی کرنے اور منصوبے کی تاثیر کی پیمائش کرنے کے لئے میکانزم قائم کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔ رکاوٹوں پر قابو پانے اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے پورے عمل میں شفافیت‘ احتساب اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت یقینی بنانا ضروری ہوگا۔ حرف آخر یہ ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے اصلاحات کی کامیابی اور بے مثل و بے مثال اقدامات کی کامیابی کا انحصار اِن دو عوامل پر ہے کہ اصلاحات کے نفاذ میں کس قدر مستقل عزم کا مظاہرہ اور اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کس حد تک سختی سے پیروی کی جاتی ہے۔