غیرملکی سرمایہ کاری

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرنے پر ”بھرپور توجہ“ دی جا رہی ہے جبکہ چند دوست ممالک نے وعدے بھی کر رکھے ہیں۔ اس طرح کی توجہ کے باوجود‘ ملک میں سرمائے کا حقیقی بہاو¿ خاطرخواہ رفتار سے نہیں ہو رہا اور ایک طرح کی مایوس کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سرمایہ کاری کی جادوئی آمد کی صرف توقع کرنا بہترین حکمت عملی یا کامیابی قرار نہیں دی جا سکتی جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ سرمایہ آنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ واپس نہیں جائے گا اور بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جس آسانی یا رفتار سے بیرونی سرمایہ کاری آتی ہے وہ اُسی تیزی سے واپس بھی چلی جاتی ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کو محفوظ ملک کی ضرورت ہوتی ہے ایک ایسا ملک جو صرف محفوظ ہی نہ ہو بلکہ وہاں بدعنوانی کی شرح بھی کم ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرمائے کا بہاو¿ صرف اُنہی علاقوں میں ہوتا جہاں پہلے سے سرمایہ کاری کی گئی ہو۔ غیرملکی سرمایہ کار محض حکومت کی مرضی سے سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے سرمائے کے تحفظ اور زیادہ یا فوری منافع پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ تیسری اہم بات ملکی سرمایہ کار ہوتے ہیں‘ جن کی سرمایہ کاری دیکھ کر غیرملکی سرمایہ کار راغب ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان کے سرمایہ کار بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہوں تو غیرملکیوں سے توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ پاکستان کا رخ کریں گے۔ ملک میں سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کا تناسب تیرہ فیصد کے درمیان ہے‘ جو جنوبی ایشیا یا دیگر متوسط آمدنی والی معیشتوں کے لئے اوسط سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کے تناسب یعنی تیس فیصد کی حد سے کافی کم ہے۔ مو¿ثر طور پر‘ ہم بحیثیت قوم خاطرخواہ بچت بھی نہیں کرتے تو اِن سبھی محرکات کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے اگرچہ گھرانے بچت کرتے دیکھے گئے ہیں لیکن یہ بچت زیادہ تر نقد‘ سونے یا رئیل اسٹیٹ کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ تینوں شعبے جو سرمائے کی کسی پیداواری ترقی میں حصہ نہیں ڈالتے ہیں جو برآمد پر مبنی پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔ نظام میں سرمائے کی اس طرح کی کمی بینکاری کے نظام کا نتیجہ بھی ہے جو ایک حد تک ملک کی مالیاتی ضروریات پورا کرنے کے لئے موجود ہے اور ہماری حکومت بینکوں کی سب سے بڑی قرض دار ہے جس کی وجہ سے عوام کے لئے قرضوں کا حصول کم رہ جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اتنا سرمایہ دستیاب نہیں کہ اُس سے صنعتی یا برآمدی ضروریات پوری کی جا سکیں اور بیرونی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا جا سکے۔ مزید برآں‘ ایک ایسے مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل جہاں غیر رسمی معیشت کی حوصلہ افزائی ہو اور رسمی معیشت کو حوصلہ شکنی ہو تو اِس سے بھی بیرونی سرمایہ کاری لانے کی سنجیدہ کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔پاکستان میں ٹیکس کی شرح سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرحیں‘ سپر ٹیکس اور دیگر من مانے ٹیکس پاکستان میں کارپوریشنوں کے لئے مو¿ثر ٹیکس کی شرح کو ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر مارکیٹوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بناتے۔ بہت سے ایسے ممالک جہاں غیرملکی سرمایہ کاری زیادہ ہوتی ہے وہاں کارپوریٹ ٹیکس کی شرحیں پاکستان سے کم ہیں۔ درمیانی آمدنی اور اپر مڈل انکم رکھنے والی عالمی معیشتوں میں سرمایہ کاری کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ مقامی سرمایہ کاری کو پہلے بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ غیرملکی سرمایہ کار پہلے مارکیٹ کا جائزہ لیتا ہے۔ پاکستان میں معیشت کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے‘ جو خطے یا اسی طرح کی دیگر معیشتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے اور اس کا معیشت میں مجموعی سرمایہ کاری سے براہ راست تعلق بھی ہے‘ جو ایک عرصے سے مایوس کن رہا ہے۔ ملکی سرمایہ کاری کے لئے ایک خوشحال اور پرامن ماحول کی ضرورت ہے جس کے بغیر غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ممکن نہیں ہوگا اور اگر حکومت رئیل اسٹیٹ اور دیگر غیر رسمی تجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے گی تو بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔پاکستان میں زیادہ ملازمتوں کی ضرورت ہے جس سے ملکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو۔ یہ ملازمتیں صرف زراعت کی میکانائزیشن اور صنعتی بنیاد کو بحال کرنے کے ذریعے پیدا کی جاسکتی ہیں۔ معیشت کی بحالی صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مقامی سرمائے کو متحرک کرنے کی حوصلہ افزائی کریںاور یہ غیر رسمی معیشت کا حجم کم کرنے‘ رسمی معیشت میں اضافے کے لئے ٹیکسوں کی شرح کم کرنے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کاروباری منصفانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کو اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عمار حبیب خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 گزشتہ چند سالوں میں‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں کافی سرمایہ کاری کی گئی ہے‘ اب ہمیں پیداواری صلاحیت بڑھانے اور برآمدات پر مبنی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی ترقی ہی موجودہ معاشی دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ ہے اور یہ ہدف گھریلو سرمائے کو الگ تھلگ کرکے اور معیشت کے غیر رسمی اور غیر ٹیکس والے حصوں کی حوصلہ افزائی کرکے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ معیشت کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنے کی صرف خواہش سے معاشی بہتری و خوشحالی نہیں آئے گی۔