آمدنی اور معاشی ترقی

عمومی تاثر ہے کہ آئندہ مالی سال(دوہزارچوبیس پچیس) کے بجٹ کی تیاری میں برسرزمین حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات (گائیڈ لائنز) کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی معاشی ترقی (جی ڈی پی گروتھ) کے مقابلے میں بھاری ٹیکسوں کے ذریعے محصولات میں اضافے کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ کسی بھی سال کا بجٹ ملک کی آمدنی اور اخراجات کی بیلنس شیٹ ہوتا ہے‘ جو حکومت کو اگلے مالی سال کے لئے اپنی مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد کرتا ہے اور یہ بجٹ اس بات پر بھی توجہ مرکوز کرتا ہے کہ جی ڈی پی نمو کے ذریعے معیشت کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔ معاشی اصول یہ ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافے کے ذریعے آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو ٹیکس بیس کو مزید بڑھا کر ٹیکسوں کے تابع ہوتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں‘ ٹیکسوں کے ذریعے آمدنی بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے اگر اس تجویز پر عمل ہوتا ہے تو اِس سے وقتی طور پر آمدنی میں اضافہ تو ہو گا لیکن یہ قلیل مدتی مفید حکمت عملی ثابت ہو گی۔آئندہ مالی سال کے لئے اٹھارہ اعشاریہ نو کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں تقریباً تیرہ کھرب روپے کا ریونیو ہدف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعے جمع کیا جائے گا۔ یہ ہدف گزشتہ سال کے ہدف یعنی نو اعشاریہ چار کھرب روپے سے نمایاں طور پر زیادہ ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ اضافی تین اعشاریہ چھ کھرب روپے بذریعہ ٹیکس آمدنی جمع کرنے کا سوچا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اِس طرح آمدنی بڑھانے کے لئے مختلف شعبوں کو دیا گیا استثنیٰ (سبسڈی) واپس لی جائے گی اور مزید ٹیکس بشمول ڈیوٹیاں عائد کی جائیں گی اور اگر ایسا ہوا تو اس سے ملک کا غریب ترین طبقہ براہ راست متاثر ہوگا۔ ملک بھر میں اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ معاشی ترقی کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گا۔ آئی ایم ایف کے مبینہ مطالبے پر صنعتی ترقی کے لئے بجلی‘ گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں تقریباً ماہانہ اضافہ ہوتا رہتا ہے‘ جو بڑے پیمانے پر قومی مینوفیکچرنگ کو براہ راست متاثر کر رہا ہے اور جس سے ہماری برآمدات بھی متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا ساختہ سازوسامان قیمت کے لحاظ سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ معاشی پالیسیوں میں ’ایڈہاک اِزم‘ معمول بن چکا ہے۔ پیٹرولیم لیوی اس کی ایک مثال ہے جسے نان ٹیکس ریونیو کی مد میں ساٹھ روپے سے بڑھا کر 80 روپے 90 پیسے فی لیٹر کر دیا گیا ہے۔ اس سے عمومی استعمال کی اشیا کی قیمتوں اور مصنوعات کی تیاری یا پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ معاشی ترقی سست ہوئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کا نفاذ کیا جاتا ہے جس سے اِس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اِسی طرح اگلے مالی سال کے لئے نان ٹیکس ریونیو کا تخمینہ تین ہزار پانچ سو ستاسی ارب روپے لگایا گیا ہے جو اس مد میں جمع ہونے والی بہت بڑی رقم ہے چونکہ تیل و گیس زیادہ تر درآمد کئے جاتے ہیں لہٰذا اِن کا افراط زر پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے افراط زر پر قابو پانے کے لئے بلند شرح سود برقرار رکھنے کا مطالبہ مارکیٹ آپریشنز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اوپن مارکیٹ آپریشنز پر انحصار کرنے والی شرح تبادلہ ایک اور طرح کی بے قاعدگی ہے جس کی وجہ سے افراط زر ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس طرح کی پالیسیاں براہ راست معاشرے کے غریب طبقوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) وفاقی حکومت کے لئے آمدنی میں اضافے کا ایک اور ذریعہ ہے اور یہ بھی تشویشناک ہے۔ چینی‘ سیمنٹ‘ کمرشل اور نان کمرشل رہائشی جائیدادوں پر ایف ای ڈی یقینی طور پر قومی معاشی ترقی کی رفتار کو متاثر کر رہی ہے اور اس سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری میں مزید خلل پڑے گا اگرچہ ٹیکس ایک چھوٹی بنیاد کے ساتھ آمدنی میں اضافہ کرتی ہے لیکن ایسا صرف معاشی ترقی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان معاشی ترقی کے بغیر ٹیکس بیس کو کیسے بڑھا سکتے ہے اور اس پر پالیسی سازوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ٹیکس اور نان ٹیکس محصولات کے اہداف عموماً پہلے سے زیادہ یعنی بلند رکھے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پہلے ہی متاثر ہے۔ ٹیکسوں میں چالیس فیصد اضافے سے ہمارے گروتھ ماڈل پر اثر پڑے گا کیونکہ ہم نے پہلے ہی جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کر رکھا ہے‘ جو کسی بھی طرح خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی ہماری بڑی آبادی کو پورا نہیں کر سکتا۔ ٹیکسٹائل‘ چمڑے کی مصنوعات اور موبائل فونز پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ سے یقینی طور پر ہمارے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو دھچکا لگے گا۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر لگائے گئے کیپیٹل گین ٹیکس میں مزید اضافہ فائلرز کے لئے پندرہ فیصد اور نان فائلرز کے لئے پینتالیس فیصد  ہے جبکہ تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے منسلک تقریبا چالیس صنعتوں کو بھی یہ کیپیٹل گین ٹیکس متاثر کرے گا۔بہتر یہ ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے کے بجائے حکومتی اخراجات کم کئے جائیں اور سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی نجکاری کی جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
‘ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پیز) کا انتخاب کیا جائے اور تقریباً تیرہ وزارتوں اور ڈویژنوں کو بلاتاخیر تحلیل کر دیا جائے۔ اِس مشق کے ذریعے بہت خطیر رقم بچائی جا سکتی ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے غربت کے شکار لوگوں کی فلاح و بہبود پر زیادہ خرچ کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے بچائی گئی رقم کو معیشت کے پیداواری شعبے کی حوصلہ افزائی کرکے صنعتوں پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے تاکہ ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا سکے اور صنعتوں کو سہارا دیا جاسکے۔ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے اور قرضوں کی تنظیم نو سب سے اہم ہے۔ پاکستان کو قرضوں کے گھناؤنے جال سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے اور ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہوگا جب معیشت ترقی کرے گی۔ معاشی سست روی کا مطلب ہے کم معاشی نمو‘ جو ہمیں مزید بحرانی صورتحال کی طرف دھکیل دے گی۔ معاشی ترقی تمام برائیوں کا حل ہے اور اسے کسی کے حکم پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ایسے فیصلے کریں جو معیشت کو بہتر بنانے میں مدد کے لئے قوم کے بہترین مفاد میں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔