فرضی معلومات کا سمندر 

گزشتہ ہفتے جب مجھے جاننے والوں اور دوستوں کی جانب سے پیغامات موصول ہوئے کہ نوم چومسکی اب اس دنیا میں نہیں رہے تو میں نے آن لائن جا کر ان کی موت کی خبر تلاش کی جس سے معلوم ہوا کہ چومسکی فوت نہیں ہوئے بلکہ انہیں فالج کا دورہ پڑا تھا اور انہیں اپنی اہلیہ کے آبائی ملک برازیل کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ یوں ایک اور خبر جھوٹی ثابت ہوئی۔غلط معلومات اور خبریں کیوں پھیلائی جاتی ہیں اس حوالے سے میرے ذہن میں 2 سوالات پیدا ہوئے۔ ایک تو یہ کہ لوگ اس طرح کی غلط معلومات آخر کیوں پھیلاتے ہیں؟ اور لوگ کیوں معلومات یا خبروں پر یقین کر لیتے ہیں جبکہ وہ باآسانی کسی بھی معلومات یا خبر کی تصدیق کر سکتے ہیں؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میرے خیال میں لوگ غلط معلومات دانستہ طور پر پھیلائی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین کی توجہ حاصل کی جا سکے اور توجہ شہرت حاصل کرنے کے علاؤہ انٹرنیٹ کے ذریعے کمائی کا ذریعہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی مہمات میں مخالف شخصیت کی کردار کشی کی جاتی ہے اور اس سے متعلق جھوٹ پھیلایا جاتا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی دشمنوں اور جنگوں کے حوالے سے غلط معلومات پھیلانا پرانا حربہ ہے تاکہ اپنے دشمن یا حریف کو کمزور کیا جا سکے اور اس کے حوصلے پست ہوں لیکن کسی دانشور کی موت کے بارے میں جھوٹی خبریں 
کیوں پھیلائی گئیں جو 1990ء کی دہائی سے عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر چکا ہے؟ میرا ماننا ہے کہ کچھ لوگ سنسنی خیزی پسند کرتے ہیں اور وہ ان لوگوں کی قابلیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو معلومات کو بنا تصدیق فارورڈ کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو عقل مند نہیں کہا جا سکتا۔ میرے ذہن میں اٹھنے والے دوسرے سوال کا جواب خاصا دلچسپ ہے کیونکہ مجھ پر غلط معلومات پہنچانے والوں کا تعلق اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے تھا اور ان میں سے چند ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی رکھتے تھے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ اگر پڑھے لکھے لوگ غلط خبروں کا شکار ہو رہے ہیں تو بنا پڑھے لکھے لوگوں کا پھر کیا قصور ہے۔ انٹرنیٹ عوام و خواص کی زندگیوں میں خاموشی سے سرایت کر چکا ہے اور اب اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اس بارے میں زیادہ نہیں سوچتے لیکن انٹرنیٹ نے ان کے معمولات زندگی کو تبدیل کیا ہے اور اب وہ اپنے کھانے پینے اور آرام کے اوقات بھی انٹرنیٹ کی نذر کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس لئے خطرناک ہے کیونکہ ہمارے بچے انٹرنیٹ پر بنا سوچے سمجھے بھروسہ کر رہے ہیں اور یہ کسی بھی صورت تعمیری نہیں۔ معاشرے پر اس سطح کے فیصلہ کن اثر و رسوخ کے ساتھ‘ انٹرنیٹ کے بارے میں بہت کم سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انٹرنیٹ پر ایک شخص اوسطاً کتنا وقت گزارتا ہے اور اگر مجموعی سماجی صورتحال کو دیکھا جائے تو ہمارے نوجوان اپنا کس قدر وقت انٹرنیٹ پر محض تفریح کی نذر کر رہے ہیں اور اکثریت کو انٹرنیٹ کی خواندگی بھی حاصل نہیں۔ وقت ہے کہ ٹیکنالوجی کے خطرات اور نقصانات کو سمجھا جائے۔ انٹرنیٹ کا استعمال برا نہیں لیکن اس کا استعمال دانشمندی سے ہونا چاہئے۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا ہر قسم کے موضوعات پر بحث کرتا ہے لیکن شاذونادر ہی کسی ٹیلی ویژن چینل‘ ریڈیو سٹیشن یا اخبار کے ذریعے ناظرین‘ سامعین یا قارئین کی رہنمائی کی جاتی ہے بالخصوص انٹرنیٹ خواندگی بچوں کے لئے انتہائی ضروری ہے اور والدین بشمول اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ انٹرنیٹ کے استعمال کے بارے میں بات چیت کریں۔ ٹیکنالوجی سے نمٹنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس تیزی سے ٹیکنالوجی نے تبدیلی پیدا کی ہے اس سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت تیزرفتار نہیں ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ آنے والے وقت میں 
کوئی صرف تصور ہی کرسکے گا کہ لوگوں کو ڈیپ فیک ویڈیوز اور آڈیو کے بارے میں قائل کرنا کتنا مشکل ہو جائے گا۔ ”الجزیرہ“ نامی نشریاتی و اشاعتی ادارے نے حال ہی میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور آئندہ امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں ایک خبر شائع کی جس میں کہا گیا کہ رائے دہندگان کو روبو کالز موصول ہوئیں جو امریکی صدر بائیڈن کی طرح لگ رہی تھیں اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ووٹ نہ دیں۔ اس معاملے میں کیا چال چلی گئی اس کا پتہ لگانا آسان تھا تاہم لائق توجہ بات یہ ہے کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے یہ اپنا اعتماد اور ساکھ گنوا رہی ہے۔ انٹرنیٹ پر دھوکہ دہی عام ہے۔ دھوکے باز اپنے چینلز مونیٹائز کرتے ہیں اور ان کے ذریعے پولرائزیشن‘ بنیاد پرستی اور نفرت انگیز تقاریر پھیلائی جاتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین اخلاقیات پر کام کر رہے ہیں تاہم جس تیزی سے مبالغہ آمیز معلومات کی صورت جھوٹ پھیل رہا ہے اس سے صورتحال زیادہ پیچیدہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ انٹرنیٹ نے انسانوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے اور تنقیدی سوچ محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ بامعنی انٹرنیٹ خواندگی کے بغیر ممکن نہیں اور جب تک انٹرنیٹ خواندگی میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک انٹرنیٹ کے ذریعے تخریب کاری ہوتی رہے گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عامر رضا۔ ترجمہ ابوالحسن امام)