وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے ملک میں ”تعلیمی ایمرجنسی“ کا اعلان کیا گیا ہے جو تعلیمی نظام کی سنگین حالت کا عرصہ دراز سے زیر التوا ہونے کا اعتراف بھی ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری کردہ چودہ نکاتی اِس منصوبے کو لچکدار رکھا گیا ہے اور اُمید ہے وزیراعظم کے احکامات پر حکومتی ادارے خاطرخواہ سنجیدگی سے عمل درآمد کریں گے۔ مذکورہ چودہ نکاتی حکمت عملی پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں بھی اِسی قسم کے اقدامات اور حربوں کو آزمایا گیا‘ جن سے کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور یہی وجہ ہے کہ اگر اِن اصلاحات پر نظر ثانی کی جائے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ آخر شعبہئ تعلیم کے لئے ہنگامی حالت کا اعلان کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟حکومت چاہتی ہے کہ سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں میں بھیجا جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ تدریسی معیار بہتر بنایا جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ اُن کی تربیت اور جسمانی نشوونما (صحت میں بہتری) بھی لائی جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ کیمونٹی پر مبنی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ بہتر اساتذہ تیار کئے جائیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ امتحانات میں نقل کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ امتحانات کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور امتحانات کے ذریعے طلبہ کی حقیقی صلاحیتوں کا کھوج لگایا جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی مالی مدد کی جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں رائج تعلیمی نظام اور نمونوں کی نقل کرتے ہوئے درس و تدریس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ فنی و تکنیکی تربیت کے ذریعے ہنرمندی کی ترقی کے پروگراموں کا آغاز کیا جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ آن لائن تعلیمی وسائل کو ترقی دی جائے اور اِس کے لئے خصوصی طور پر تعلیمی مالی امداد کے پروگراموں کو وسعت دی جائے۔ لب لباب یہ ہے کہ مالی خواندگی کو فروغ اور تعلیم کے روائتی طریقوں میں جدت طرازی متعارف کرانا حکومت کے پیش نظر ہے۔تعلیمی ایمرجنسی درست اور نہایت ہی طاقتور و بروقت اقدام ہے جس کے ذریعے غیر معمولی اقدامات کو نافذ کیا جا سکتا ہے جو عام حالات میں بیوروکریٹک تاخیر یا سیاسی مزاحمت کی وجہ سے شروع نہیں کئے جا
سکتے۔ تعلیمی ایمرجنسی امید کی کرن ہے اور ہمیں یاد دلا رہی ہے کہ پالیسی کے نفاذ کی معمول کی رفتار ملک کی تعلیمی خامیوں کی فوری ضرورت کو دور کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ یہ فوری اور مؤثر اقدام کی ضرورت کی بھی نشاندہی ہے جو تبدیلی کی طرف ایک پیشقدمی ثابت ہو سکتی ہے۔ شرح خواندگی‘ سکولوں میں طلبہ کے خالص اندراج اور تعلیم کے معیار جیسے تقریبا تمام اشارئیوں میں پاکستان عالمی اوسط (شرح) سے پیچھے ہے۔ مثال کے طور پر پرائمری تعلیم کی تکمیل کی شرح خطے کے بہت سے ممالک میں پاکستان سے بہتر ہے۔ یونیسکو کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں پرائمری سکولوں کی تکمیل کی شرح 54 فیصد ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان آئندہ کئی دہائیوں تک یونیورسل پرائمری تعلیم عام کرنے کا درجہ حاصل نہیں کر سکے گا جبکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل پچیس اے میں اِس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ پرائمری اور ثانوی تعلیم دونوں سطحوں کا احاطہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس ناقص کارکردگی نے پاکستان کو دنیا میں منفرد ملک بنا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں پرائمری کی تکمیل کی شرح پانچ کروڑ سے زائد آبادی والے ممالک میں سب سے کم ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر نوید شیخ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب گیارہ فیصد ہے جو تعلیمی نظام کو بچانے کے لئے درکار سرمایہ کاری کے امکانات کو محدود کئے ہوئے ہے جیسا کہ ورلڈ بینک کے انڈیکس میں دکھایا گیا ہے کہ ملک کی پبلک ایڈمنسٹریشن کی نااہلی پاکستان کو یوگنڈا اور نائیجیریا جیسے ممالک سے نیچے رکھے ہوئے ہے۔ یہ غیر مؤثر بیوروکریٹک ڈھانچہ پاکستان کے اصلاحاتی نظام کو تقریباً غیر مؤثر بنائے ہوئے ہے‘پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا دو نکات پر اتفاق رائے ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قلیل مدتی اصلاحات پاکستان جیسے بڑے ملک کے لئے ناکافی ہیں۔ اصلاحات کے افق کو کم از کم دس سال کیا جانا چاہئے۔ تعلیمی اصلاحات کسی سڑک کی تعمیر کے منصوبے کی طرح نہیں ہوتیں۔ اِس کے لئے زیادہ توسیع شدہ ٹائم فریم کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا‘ نتائج پر مبنی فنانسنگ جیسی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ محکمہئ تعلیم کے کمزور ترسیلی میکانزم اکثر غلط استعمال ہوتے ہیں اور یہ وسائل کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔ شہری سطح پر اس بات پر اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ موجودہ صورتحال نہ صرف خطرناک ہے بلکہ قومی ریاست پاکستان کے وجود کے لئے بھی خطرہ ہے۔ پاکستان میں بینکنگ اور فنانس کا مضبوط نظام موجود ہے۔ اگر تعلیم کے شعبے کو قانونی طور پر صنعتی یا ایس ایم ای سیکٹر قرار دیا جائے تو بینکنگ کے شعبے سے پوری طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ چھبیس ملین (دو کروڑ ساٹھ لاکھ) اضافی بچوں کو سکولوں میں داخلہ دینے کے لئے پاکستان کو بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ یہ ہدف صرف ٹیکس دہندگان کے پیسے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری شعبے سے کریڈٹ پر مبنی فنانسنگ اور طالب علموں کی فیس کی ادائیگی پر مشتمل دو جہتی نقطہ نظر ممکنہ طور پر نئے سکولوں کے قیام کو بھی تیز کرسکتا ہے۔ اِسی طرح قانونی اور ریگولیٹری تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے تعلیم کے شعبے کو صوبائی معاملہ بنا دیا ہے۔ اس ترمیم سے پہلے‘ تعلیم مشترکہ فہرست میں ذکر کی جاتی تھی تاہم‘ تعلیم کی صوبوں کو منتقلی نامکمل بھی رہی۔ تعلیمی ایمرجنسی اس وقت تک اپنے اہداف حاصل نہیں کرے گی جب تک کہ تعلیم کو مقامی حکومت یا ضلعی سطح پر منتقل نہیں کیا جاتا۔ ضرورت وسائل کو متحرک کرنے کی ہے۔ ضرورت قانونی تبدیلیوں کو نافذ کرنے کی ہے اور ضرورت اِس بات کو یقینی بنانے کی ہے کہ مضبوط ادارہ جاتی میکانزم قائم کرنے کے لئے ایک روڈ میپ پیش کیا جائے کہ تعلیمی ایمرجنسی تبدیلی کا باعث بنے اور پاکستان کو تعلیمی برتری و بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کا مؤجب بنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
……