ڈیجیٹل ڈس انفارمیشن

دنیا معلومات اور فرضی معلومات کے چنگل میں پھنسی دکھائی دے رہی ہے۔ اِس حوالے سے سرائیوو میں ”حقائق کی جانچ پڑتال“ سے متعلق ایک عالمی کانفرنس بعنوان ”گلوبل فیکٹ الیون“ کے شرکا اِس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کس طرح ’ڈیجیٹل ڈس انفارمیشن‘ یعنی اُس غلط بیانی کو پھیلنے سے روکا جائے جو ’ڈیجیٹل‘ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ایک سکینڈ سے بھی کم وقت میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور اِس کے منفی اثرات زائل کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ جنگ کی طرح غلط معلومات پھیلانا (پراپیگنڈہ) بھی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اِس سوچی سمجھی حکمت عملی کا توڑ جنگی بنیادوں پر کئے گئے اقدامات ہی سے ممکن ہے۔سرائیوو دنیا کے چند خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے۔ ماضی میں اِس شہر نے تشدد اور خون ریزی دیکھی لیکن وہ سب تلخ یادیں اب ماضی کا حصہ ہیں اور یہ شہر اور اِس شہر کے رہنے والے ماضی کو فراموش کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کو ’سرائیوو‘ سے سبق سیکھنا چاہئے کہ کس طرح تشدد اور خون ریزی کے باوجود اِس شہر نے اپنی روایات کو نہیں بھولا۔ اِسے یورپی یونین اور شینگن میں شامل ہونا ہے (جو اس کے ہمسایہ ممالک سلووینیا اور کروشیا پہلے ہی کر چکے ہیں)۔ بوسنیا شاید مین لینڈ یورپ کا واحد مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن اس میں سرب اور کروشیا کی اقلیتی آبادی بھی شامل ہے لیکن اقوام نے اختلافات کے برعکس ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھا ہے‘ جو اپنی جگہ ایک غیرمعمولی بات ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بہت پہلے ہی احساس ہو گیا تھا کہ مستقل تنازعات اور جنگ میں کوئی نہیں جیتتا شاید جنوبی ایشیا کے ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے اِس نتیجہئ خیال میں اسباق پوشیدہ ہیں۔ سرائیوو ہوائی اڈے سے شہر کے مرکز کے قریب اپنی رہائش گاہ کی طرف جاتے ہوئے‘ میں نے بہت سی ایسی عمارتیں دیکھی جن پر گولہ باری کی وجہ سے سوراخ نمایاں تھے۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ یہ کیا ہیں تو اس نے کہا کہ یہ  1990ء کی دہائی کے اوائل کی جنگ کے اثرات ہیں اور بہت سے عمارتوں کے مالکان نے ماضی میں جو کچھ ہوا تھا اور لوگوں کی قربانیوں کی یاد دہانی کے طور پر ان عمارتوں کو مرمت نہیں کیا۔ شہر کو کئی مہینوں تک محاصرے میں رکھا گیا اور سینکڑوں شہری مارے گئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ شہر میں ایک ندی پر ایک پل بھی ہے جہاں بہت سی ہلاکتیں سنائپرز کی وجہ سے ہوئیں۔ میرے میزبان نے بعد میں ذکر کیا کہ کچھ سڑکوں پر رنگوں کے نشانات ہیں اور یہ ان مقامات کی نشاندہی کرنے کے لئے ہیں جہاں جنگ کے دوران مارٹر حملوں میں اموات ہوئی تھیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ شہر اور ملک فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے چھٹکارا حاصل کرے گا اور یہ ایک درست فیصلہ تھا کیونکہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ عوام نے ماضی کی تلخ یادوں کو فراموش کر دیا ہے۔عالمی کانفرنس بعنوان ”گلوبل فیکٹ الیون“ کا افتتاح نوبل امن انعام یافتہ فلپائن کی صحافی ماریہ ریسا اور اے ایف پی کے گلوبل نیوز ڈائریکٹر فلپ چیٹوینڈ نے کیا۔ اِس موقع پر ”غلط معلومات کے دور میں سچائی کا دفاع“ کرنے جیسے عنوان پر سیر حاصل بات چیت ہوئی۔ اس غوروفکر سے حاصل ہونے والی اہم (قابل ذکر) بات یہ تھی کہ حقائق کی جانچ کرنے والے اداروں کا کردار کلیدی ہوتا ہے اور اگر ادارے ذمہ داری کا ثبوت دیں تو گمراہ کن معلومات یا غلط خبریں پھیلانے کا سلسلہ بڑی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ ریسا نے کہا کہ ٹیک کمپنیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معلومات کی تشہیر کی اجازت دینے کے لئے ایسے طریقہئ کار اپنائیں جن سے غلط معلومات نہ پھیلائی جا سکیں اور اِس سلسلے میں مصنوعی ذہانت جیسے امکانات سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح صحافیوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بحیثیت رپورٹر حقائق کی تصدیق کو زیادہ اہمیت دیں۔ حقائق کی جانچ پڑتال صحافت کا ایک بنیادی جز ہے کیونکہ یہ صحافیوں ہی کا کام ہے کہ وہ منصفانہ اور درست طریقے سے واقعات کی رپورٹنگ کریں اور اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ خبر رساں اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ صحافتی عملے کی وقتاً فوقتاً تربیت کا اہتمام کریں اور درست حقائق کی تشہیر کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ آج کی سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی دنیا (ڈیپ فیک وغیرہ) میں مطلوبہ مہارتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے غلط معلومات ختم کی جاسکیں۔اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو تیز رفتار انٹرنیٹ (براڈ بینڈ انٹرنیٹ) کے وسیع پیمانے پر استعمال کا نتیجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں تیزی سے اضافے کی صورت سامنے آیا ہے۔ آج مرکزی دھارے کے اخبارات یا ٹیلی ویژن چینلز سے نہیں بلکہ عوام کی اکثریت یوٹیوب‘ فیس بک‘ ٹک ٹاک‘ ٹویٹر (ایکس) اور واٹس ایپ وغیرہ جیسے آن لائن وسائل کے ذریعے خبریں دیکھتے ہیں اور سیاسی جماعتیں اِس صورتحال سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔صرف امید ہی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان سے غلط معلومات کا خاتمہ کرنے کے لئے ادارے‘ صحافی اور سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں گی اور ایک ایسے ڈیجیٹل نظام میں سرمایہ کاری کریں گے جو حقائق کی جانچ پڑتال سے اخذ سچائی پر مبنی ہو۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عمر قریشی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)