مؤثر افرادی قوت

تعلیم کی صورتحال اور نوجوانوں کی بے روزگاری کے بارے میں تازہ ترین اعداد و شمار پاکستان میں ایک مایوس کن تصویر پیش کر رہے ہیں۔ حیران کن طور پر دو کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں جو دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک کی انفرادی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباً ستر فیصد بچے متن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح قومی اوسط بے روزگاری کی شرح سے دگنی ہے اور لیبر مارکیٹ میں پندرہ لاکھ سے زائد نئے افراد کی سالانہ آمد سے اس بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔معیشت محض دو سے تین فیصد شرح نمو کے ساتھ اتنی بڑی لیبر فورس کو اپنے اندر جذب نہیں کر سکتی۔ حقیقی اصطلاح میں‘ فی الوقت آبادی میں اضافے کے مقابلے ترقی کی شرح منفی ہے۔ ملک اور معیشت اب غیر تعلیم یافتہ اور غیر ہنرمند مزدوروں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے تاہم‘ اصلاحات کے لئے ایک واضح نفاذ کی حکمت عملی ابھی تک پوشیدہ ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی لیبر مارکیٹوں اور تکنیکی ترقی‘ گلوبلائزیشن‘ آب و ہوا کی تبدیلی اور آبادیاتی تبدیلی کی وجہ سے مہارت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تناظر میں‘ ہمارے نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر مند بنانے کی ضرورت کبھی بھی اس قدر اور فوری نہیں رہی۔ روایتی تعلیمی نقطہئ نظر جدید دنیا کے اُبھرتے ہوئے تقاضوں کے لئے ہماری افرادی قوت کو تیار کرنے میں ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کے مسائل پر مؤثر طریقے سے قابو پانے والے ممالک کے کچھ کامیاب ماڈلز سے سبق حاصل کرتے ہوئے‘ یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک مضبوط ٹی وی ای ٹی (تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت) کا نظام ضروری ہے۔ اس طرح کا نظام روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کو یقینی بنا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں موجودہ ٹی وی ای ٹی نظام مارکیٹ کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا اور اسے مکمل طور پر از سر نو تشکیل دیا جانا چاہئے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)‘ ورلڈ بینک اور یونیسکو کی نئی مشترکہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ٹی وی ای ٹی کا نظام موجودہ مہارتوں اور لیبر مارکیٹ کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ نتیجتاً طلبہ کو بھی اچھی طرح سے خدمات فراہم نہیں کی جاتیں اور تربیت اکثر فرسودہ نصاب اور آلات‘ کم تیاری یا غیر تربیت یافتہ اساتذہ‘ سیکھنے سکھانے کے عمل میں درپیش مشکلات اور فراہم کنندگان کے لئے کمزور ترغیبات کے باعث توقعات سے کم ہے۔ ’ٹی وی ای ٹی‘ کو عام طور پر دوسرے درجے کا تعلیمی ٹریک سمجھا جاتا ہے جس میں چیلنجنگ سیکھنے والوں کو ہدایت کی جاتی ہے۔ اس سے ممکنہ طلبہ کو داخلہ لینے یا فرموں کو ٹی وی ای ٹی گریجویٹس کی خدمات حاصل کرنے میں ناکامی ہوسکتی ہے۔ ٹی وی ای ٹی سیکٹر میں اندراج کی کم صلاحیت بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں ٹی وی ای ٹی کے شعبے میں صرف چار لاکھ پچاس ہزار طالب علموں کو شامل کرنے کی صلاحیت ہے‘ جس کی وجہ سے سکول نہ جانے والے بچوں کو ایڈجسٹ کرنا مشکل ہے۔ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ساٹھ فیصد طلبہ تعلیم سے محروم ہیں۔ انہیں بہتر ملازمتوں‘ بہتر تنخواہوں‘ بہتر زندگی اور بالآخر سماجی انصاف کی خواہش کے ساتھ بااختیار بنانے کے لئے مؤثر مہارتوں اور زندگی بھر ہنر سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس صورتحال کا اگر ڈیموگرافک جائزہ لیا جائے تو صورتحال مزید مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کا موازنہ اگر دیگر ممالک سے کیا جائے تو اِس شعبے میں کمی بیشی کی دلخراش تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے مثال کے طور پر‘ جرمنی میں فنی تربیت یعنی ٹی وی ای ٹی سیکٹر کو دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی میں‘ نو یا دس سالہ تعلیم حاصل کرنا لازم ہوتی ہے اور تعلیم چھ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے جبکہ پندرہ یا سولہ سال کی عمر تک لوئر سیکنڈری تعلیم مکمل کی جاتی ہے۔ اِسی طرح اپر سیکنڈری تعلیم کے لئے باون فیصد طلبہ جنرل ایجوکیشن کورسز میں شرکت کرتے ہیں جبکہ اڑتالیس فیصد طلبہ ووکیشنل پروگراموں میں داخلہ لیتے ہیں جو تکنیکی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ پروگراموں میں طلبہ کو دوہری فنی تربیت دی جاتی ہے‘ جہاں نظریاتی کلاس روم کی ہدایات کو عملی کام کاج کی جگہوں سے متصل کیا جاتا ہے۔ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے مطابق جرمنی میں نوجوانوں کی بے روزگاری مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ملک میں مضبوط ڈوئل اپرنٹس شپ سسٹم موجود ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک مؤثر ٹی وی ای ٹی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پی آئی ڈی ای کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق‘ ملک کے تعلیم یافتہ 33فیصد سے زیادہ نوجوانوں کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں 96 فیصد طلبہ عام تعلیم میں داخلہ لیتے ہیں جبکہ صرف 4 فیصد تکنیکی یا پیشہ ورانہ تعلیم میں داخلہ لیتے ہیں۔ قومی فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر پاکستان معاشی بہتری چاہتا ہے اور نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح بھی کم کرنا چاہتا ہے تو توجہ‘ لگن اُور ہر قسم کے وسائل کو ’تکنیکی تعلیم‘ کی طرف موڑنا ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر‘ واجد اسلام۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)