صنفی بنیاد پر تشدد

قانون سازی میں نمایاں پیش رفت کے باوجود صنفی بنیاد پر تشدد کو نہیں روکا جا سکا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں یہ وسیع اور گہرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے مطابق پاکستان میں بتیس فیصد خواتین کو کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اِس میں درجہ بندی میں گھریلو تشدد بھی شامل ہے‘ اسمگلنگ‘ خواتین پر جبراور جسم فروشی یا پھر غیرت کے نام پر خواتین کے خلاف جرائم کی فہرست خاصی طویل ہے۔ جیسے جیسے نوجوان لڑکیاں جبر اور بدسلوکی کے ماحول میں پروان چڑھتی ہیں تو انہیں تشدد کی مختلف شکلوں کا سامنا کرنا یقینی ہوتا جاتا ہے۔ تشدد کا یہ مظاہرہ زندہ بچ جانے والی خواتین کی زندگیوں کو نمایاں طور پر متاثر کرتا ہے‘ یو این ایف پی اے کے مطابق‘ صنفی تشدد سے خواتین کی شخصیت مسخ ہوتی ہے اور زندہ بچ جانے کی صورت میں بھی وہ جسمانی اور متاثر ذہنی صحت کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہیں جس سے ان کی زندگی میں اضطراب‘ افسردگی‘ خودکشی کے خیالات اور پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔صنفی تشدد سے زندہ بچ جانے والی خواتین اکثر انفرادیت‘ وقار اور خود اعتمادی کے فقدان کا سامنا کرتی ہیں۔ جسمانی طور پر‘ وہ باقی ماندہ زندگی صحت کے متعدد مسائل کا سامنا کرتی ہیں‘ جو مزید سنگین پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ اِس المناک حقیقت کی عکاسی پاکستان میں زچگی کی شرح اموات اور خواتین کی صحت کے مسائل سے ہوتی ہے‘ پدرشاہی نظام نے ملک میں خواتین پر ظلم و ستم اور ان کی تعظیم کو کم کرنے کی صورت متاثر کیا ہے‘یہ صنفی عدم مساوات نہ صرف تشدد کے پھیلاو¿ کو بڑھاوا دیتی ہے بلکہ تعلیم‘ سیاست اور افرادی قوت جیسے اہم سماجی شعبوں میں خواتین کی شرکت کو بھی منظم طریقے سے روکتی ہے۔ قومی سطح پر خواتین (پندرہ سے چونسٹھ سال کی عمر) کی ریفائنڈ لیبر فورس پارٹنرشپ ریٹ (ایل ایف پی آر) مردوں کے لئے 84فیصد کے مقابلے میں 26فیصد تک کم ہے‘ اِس سے خواتین کی صلاحیتوں کو دبایا جاتا ہے اور انہیں معاشرے کی ترقی میں حصہ ڈالنے سے روکا بھی جاتا ہے‘پاکستان میں صنفی تشدد سے نمٹنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سماجی بدنامی کا تاثر ہے جس کی وجہ سے تشدد کا شکار (متاثرہ خواتین) کی اکثریت خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہے حالانکہ خاموشی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود مسئلہ ہے کیونکہ اِس کی وجہ سے حسب قانون انصاف نہیں ہوتا۔ جو خواتین صنفی تشدد کے خلاف آواز ا±ٹھاتی ہیں ا±نہیں مختلف طریقوں سے بدنام کیا جاتا ہے اور یہ بدنامی کئی طریقوں اور اشکال کی صورت ظاہر ہوتی ہے تاہم جو عورتیں اپنے حق کے لئے بولتی ہیں انہیں متاثرین پر الزام تراشی‘ بے دخلی اور یہاں تک کہ مزید تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بدسلوکی کی اطلاع دینے کے خلاف سب سے طاقتور رکاوٹ ہے نتیجتاً خاموشی کا یہ کلچر مجرموں کو احتساب سے بچاتا ہے‘خواتین کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین موجود ہیں اور اِن قوانین پر عمل درآمد کے لئے عدالتی نظام بھی موجود ہے لیکن اِس کے باوجود بھی صنفی تشدد کے اکثر معاملات میں قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ تحقیق کاروں کے نوٹس میں یہ بات بھی آئی ہے کہ صنفی تشدد کے اکثر واقعات رپورٹ بھی نہیں کئے جاتے ہیں اور جو واقعات کسی نہ کسی صورت عدالتوں تک پہنچتے بھی ہیں تو ا±نہیں طویل تاخیر اور ناکافی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ یو این ایف پی اے کے مطابق‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ثبوت ہونے کے باوجود بھی صنفی تشدد کے لئے مقررہ سزائیں انتہائی کم ہیں۔صنفی تشدد کو روکنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہے۔ جامع تعلیمی پروگرام ہی دقیانوسی تصورات کو چیلنج اور تبدیل کرسکتا ہے۔ تعلیم خواتین کو اپنے حقوق پر زور دینے کے لئے اعتماد فراہم کرکے انہیں بااختیار بناتی ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین معاشی طور پر خود مختار ہونے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں‘ جس سے گھریلو تشدد کے لئے ان کی کمزوری کم ہوجاتی ہے اور انہیں بدسلوکی کی صورت میں الگ ہونے کی صورت اپنی کفالت اور کنبے کی کفالت کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ڈومیسٹک ہیلتھ سروے کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین (چھیالیس فیصد) تشدد کی صورت کسی سے مالی مدد طلب کرتی ہیں لیکن جو خواتین تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں ا±ن کی پچیس فیصد تعداد مالی مدد کےلئے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ یہ تشویشناک اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ تعلیم یافتہ خواتین صنفی تشدد کی صورت میں اپنا دفاع اور اپنے حقوق کے لئے آئینی جدوجہد زیادہ پراعتماد طریقے سے جاری رکھتی ہیں۔ حکومت پاکستان وقتاً فوقتاً صنفی تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے اداروں‘ خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کو شامل کرتے ہوئے کثیر الجہتی مربوط کوششیں کر رہی ہیں تاہم اِن کوششوں کو زیادہ فعال طور پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سمرا سہیل۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 اس کوآرڈی نیشن کو وزارت انسانی حقوق‘ خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی اور صوبائی کمیشنوں اور حقوق انسانی کے دیگر متعلقہ اداروں کی طرف سے سہولیات اور تعاون فراہم ہونا چاہئے ا±ور خواتین کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لئے حکومتی اداروں میں ہم آہنگی کے لئے مضبوط میکانزم تیار کرنا چاہئے۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے مربوط کوشش ضروری ہے جہاں تک متاثرہ خواتین میں پائے جانے والے بدنامی کے خوف کی بات ہے تو اِس کا خاتمہ انصاف حاصل کرنے کی مثالوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔ کسی ایسے معاشرے میں جہاں خواتین بااختیار نہ ہوں اور وہ خوفزہ ہوں تو ایسے معاشرے میں قومی ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔ حکومتی و غیرحکومتی سطح پر مربوط اقدامات اور سرمایہ کاری کے ساتھ پرعزم کوششیں پاکستان سے صنفی تشدد کے خاتمے اور ملک بھر میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جانب اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔