زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح‘ نیوز میڈیا کی صنعت تیزی سے ڈیجیٹلائزیشن اور انٹرنیٹ کی رسائی کی وجہ سے پھل پھول رہی ہے اور دیگر صنعتوں کی طرح یہ صنعت جمود کا شکار نہیں۔ مین اسٹریم نیوز میڈیا کو روایتی طور پر کسی بھی جمہوری سیٹ اپ میں واچ ڈاگ (چوکیدار) کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاہم انٹرنیٹ نے نیوز میڈیا کی تعریف بدل دی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انٹرنیٹ کے متعارف ہونے سے میڈیا انڈسٹری کے منظر نامے میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اب صحافی کسی بھی جگہ سے خبر‘ تصویر یا ویڈیو اور دیگر نشریاتی مواد بآسانی ’فائل (ارسال)‘ کر سکتے ہیں!دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی میڈیا نے بھی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی گنا ترقی کی ہے۔ ایک سرکاری ٹی وی چینل کے ساتھ آغاز سے لے کر سال دوہزاردو میں نیوز میڈیا انڈسٹری کی لبرلائزیشن تک‘ پاکستان کے نیوز میڈیا کا سفر جاری ہے اور اب خبروں کی ڈیجیٹلائزیشن ہو رہی ہے یعنی خبروں کو ڈیجیٹل وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ایک الگ پیرائے میں بیان کیا جا رہا ہے۔انٹرنیٹ نے میڈیا کو کئی طریقوں سے متاثر کیا ہے‘ خاص طور پر سامعین و ناظرین کی پسندوناپسند کے مطابق خود کو تبدیل کیا ہے اور یہی بنیادی تبدیلی کا ایک نئے نیوزمیڈیا کے طلوع ہونے کا مؤجب بنی ہے۔ پاکستان میں‘ گزشتہ چند برس کے دوران‘ میڈیا کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ میڈیا نے خود کو تبدیل کیا ہے۔ مرکزی دھارے کے میڈیا ذرائع (پرنٹ و ٹیلی ویژن) ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں منتقل ہورہے ہیں اور یہی مستقبل ہے۔ متعدد رپورٹس اور مطالعات میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ٹی وی چینلز دیکھنے میں گزارے گئے وقت میں کمی آئی ہے کیونکہ لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے پل پل کی فوری خبر مل رہی ہے۔سال دوہزارنو سے دوہزاردس کے درمیانی عرصے میں پاکستان میں ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کا اوسط وقت آٹھ گھنٹے تھا جو سال دوہزارتیئس میں کم ہو کر پچاس فیصد رہ گیا ہے کیونکہ پاکستانی اب ٹی وی پر ایک سے چار گھنٹے گزارتے ہیں۔ ٹیلی ویژن انڈسٹری کی اہمیت میں بتدریج کمی نے پاکستان میں ٹی وی خبروں کے مستقبل پر غیر یقینی کے سائے ڈال دیئے ہیں۔ اسی طرح‘ پرنٹ انڈسٹری مہنگائی کی وجہ سے اپنا وجود اور موجودگی برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ سال دوہزار کی دہائی کے اوائل میں براڈکاسٹ میڈیا کی لبرلائزیشن اور آن لائن نیوز پلیٹ فارمز کے پھیلاؤ سے پہلے راولپنڈی میں تقریباً سولہ سو اور اسلام آباد میں سات سو اخبار فروش تھے تاہم اخبارات کی فروخت میں کمی کی وجہ سے دکانداروں کی تعداد بالترتیب نو سو اور چارسو اَسی ہوگئی ہے۔ یہ اعداد و شمار مین سٹریم نیوز میڈیا کے چیلنج کو اجاگر کرتے ہیں کیونکہ صارفین کی ترجیحات ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہیں۔خبروں میں عوام کی دلچسپی برقرار ہے لیکن پاکستان کے ڈیجیٹل ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں جس کی نشاندہی موبائل فون اور انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی بڑھنے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق جون دوہزارتیئس تک پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد بیس کروڑ اور انٹرنیٹ صارفین کی تعداد نو کروڑ تھی۔ جنوری دوہزارچوبیس کے اختتام پر سات کروڑ (ستر ملین) سے زائد پاکستانی مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (جیسا کہ فیس بک‘ یوٹیوب‘ ٹک ٹاک‘ ایکس (سابقہ ٹویٹر) وغیرہ استعمال کر رہے تھے۔ ڈیجیٹل میڈیا میں اضافے سے صحافت کی نئی تعریف وجود میں آئی ہے‘ خاص طور پر نوجوان‘ جہاں آن لائن پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا کو خبروں اور حالات حاضرہ کے مواد کے بنیادی ذرائع کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہیں وہ خبروں پر تبصرہ بھی آن لائن ہی کرنا پسند کرتے ہیں۔ڈیجیٹل میڈیا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کے ذریعے کوئی بھی خبر تیزی سے پھیلتی ہے یعنی خبروں کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پرنٹ و ٹیلی ویژن کے ذرائع سوشل میڈیا کی طرح فعال نہیں ہیں کیونکہ ریئل ٹائم اپ ڈیٹس آ رہی ہوتی ہیں اور خبروں کے متن یا مواد میں تیزی سے ترمیم (اضافہ) ہو رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحافیوں نے ڈیجیٹل میڈیا کو اپنا لیا ہے اور وہ ایسا مجبوراً کر رہے ہیں کیونکہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ صحافت کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ اِس تبدیلی سے ڈیجیٹل صحافت کی ترقی اور فروغ ملا ہے۔ حالیہ برسوں میں‘ ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز کے عروج کے علاؤہ‘ صحافیوں (ابھرتے اور تجربہ کار دونوں) کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے اپنے تجزئیوں کو پھیلانے کے لئے یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں تاہم ’سنسنی خیزی‘ کلک بیٹ اور جعلی خبروں کی تشہیر جاری ہے اور ڈیجیٹل مواد میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی ساکھ کم ہوئی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عجوہ حجازی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
آن لائن غلط خبریں یا تبصرے کیوں کئے جاتے ہیں؟ اِس لئے کہ بنیادی طور پر آن لائن وسائل کی آمدنی کا انحصار اشتہارات پر ہوتا ہے اور جو ویڈیو زیادہ چلتی ہے یا سامعین و ناظرین کی زیادہ توجہ حاصل کرتی ہے اُس کی آمدنی بھی اُتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ نتیجتاً ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے صحافت اور صحافیوں کی ساکھ متاثر ہوئی ہے کیونکہ وہ حقائق پر مبنی خبروں کو پھیلانے اور اسے غیر سنسنی خیز انداز میں پیش کرنے کے صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ایک طبقہ اپنا یہ کردار ذمہ داری سے ادا نہیں کر رہا۔ ڈیجیٹل میڈیا نے پیچیدہ اور تیز رفتار ماحول پیدا کیا ہے جہاں ہر خبر کی صداقت سے پہلے دوسری غلط خبر یا غیرمصدقہ معلومات آ جاتی ہے اور ڈیجیٹل میڈیا میں غلط معلومات کے امکانات پرنٹ میڈیا سے زیادہ ہوتے ہیں اگرچہ کچھ مقامی میڈیا اداروں نے جعلی خبروں کا مقابلہ کرنے کے لئے حقائق کی جانچ پڑتال (فیکٹ چیکنگ) شروع کر رکھی ہے لیکن اِس شعبے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا کسی بھی حکومت کے لئے ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لئے جامع قانون سازی کی ضرورت ہے جو جعلی خبروں کی واضح طور پر وضاحت کرے اور متناسب سزاؤں کی تجویز پیش کرے جس سے اظہار رائے کی آزادی کے حق میں رکاوٹ نہ بنیں۔ پاکستان میں خبروں کی تیزی سے ڈیجیٹلائزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے تین اہم اسٹیک ہولڈرز پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک صحافی‘ دوسرا سول سوسائٹی اور تیسرا حکومت۔ آج کے ماحول میں ذمہ دارانہ صحافت اور حکومت کی جانب سے جامع اور سوچی سمجھی قانون سازی ضروری ہے۔ لوگوں کو بھی اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے خبروں پر اعتماد یا بھروسہ کرتے ہوئے سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔