مصنوعی ذہانت اور درس و تدریس

تیز رفتار تکنیکی ترقی کے دور میں‘ مصنوعی ذہانت (آر ٹی فیشل انٹیلی جنس یعنی اے آئی) مختلف شعبوں میں تبدیلی لانے والی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے‘ بہت سے ڈومینز میں جہاں مصنوعی ذہانت انمٹ نشانات چھوڑ رہی ہے‘ درس و تدریس یعنی شعبہئ تعلیم اس سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا مقصد تدریسی عمل کے طور طریقوں میں جدت لانا ہے‘ جو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے چوتھے ہدف کی طرف تیزی سے پیش رفت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جو جامع اور مساوی معیار کی تعلیم فراہم کرنے اور زندگی بھر سیکھنے کے مواقعوں پر مرکوز ہے۔سماجی وسائل کو بڑھانے والے کے طور پر کام کرتے ہوئے‘ مصنوعی ذہانت طالب علموں کو مؤثر تعلیمی سفر میں آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرتی ہے‘ اس طرح معاشرتی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج تعلیم کے شعبے میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت کے ساتھ‘ مصنوعی ذہانت اس شعبے میں انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اپنے تعلیمی ایجنڈے 2030ء کے حصول کے لئے مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لئے رکن ممالک کی مدد کی جا رہی ہے جس میں ”سب کے لئے مصنوعی ذہانت کی فراہمی“ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ’مصنوعی ذہانت اور تعلیم: پالیسی سازوں کے لئے رہنمائی‘ نامی اپنی رپورٹ میں یونیسکو کا مقصد معلومات اور تحقیق تک رسائی میں موجودہ عدم مساوات دور کرنے میں مصنوعی ذہانت کے کردار کو شامل کرنا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیتا ہے کہ مصنوعی ذہانت ممالک کے اندر اور ان کے درمیان تکنیکی تقسیم کو وسیع نہ کرے۔ یہ اقدام اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ تعلیم میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے انسانی صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہئے‘ انسانی حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے اور پائیدار ترقی کے لئے سیکھنے اور کام کرنے میں مؤثر انداز میں تکنیکی تعاون کو آسان بنایا جانا چاہئے۔ یونیسکو کے ایجوکیشن 2030ء ایجنڈا کے مطابق‘ تعلیم میں مصنوعی ذہانت حکومت کی شمولیت کے ساتھ جامع نقطہ نظر ہے جو پالیسی کی تشکیل میں ڈیٹا کے اثرات کو تسلیم کرتی ہے اور اس سے رازداری اور سلامتی جیسے اوصاف حاصل ہوتے ہیں جو مشین اور انسانی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے۔ نصاب تعلیم میں مصنوعی ذہانت سے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم میں اخلاقی غور و فکر کو بھی شامل کرنے پر کام ہونا چاہئے۔ یہ عمل طالب علموں کے تعلیمی پس منظر سے قطع نظر معیاری تعلیم پر توجہ مرکوز کرتا ہے جبکہ تربیت حاصل کرنے والوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ یونیسکو کا ایجنڈا انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کمپیٹنسی فریم ورک میں مصنوعی ذہانت کی مہارتوں کے انضمام سے تربیت کاروں کو مدد ملتی ہے۔تعلیم میں مصنوعی ذہانت کے ناقدین تعلیمی عمل میں ممکنہ خرابیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ جہاں اگر انسانی مداخلت نہیں ہوگی تو نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور ڈیٹا پرائیویسی اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز کی وجہ سے تعصبات پھیل سکتے ہیں۔ ان خدشات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا اور تعلیم کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کا استعمال اخلاقی اقدار کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک چین اور بھارت کی جانب سے اپنائے گئے مختلف طریقوں کا تقابلی جائزہ لینا ضروری ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر روبینہ شوکت۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
 دونوں ممالک مصنوعی ذہانت کو اپنانے میں پیش پیش ہیں لیکن ان کے نقطہ نظر مختلف ہیں۔ چین نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے کلاس رومز کے ساتھ تعلیمی شعبے میں مصنوعی ذہانت کو اپنایا ہے۔ چہرے کی شناخت اور نصاب میں تبدیلی اس کے مرکزی نکات ہیں‘ جو کسی ملک کی تعلیمی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر نوجوان طالب علموں کی تعلیم میں مصنوعی ذہانت کو ضم کرنا ایک اہم حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 2017ء کے اوائل میں‘ چین کی اسٹیٹ کونسل نے ’مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی نئی نسل کا ترقیاتی منصوبہ‘ جاری کیا تھا‘ جس میں مصنوعی ذہانت سائنس کو مقبول بنانے کی سرگرمیوں کو انجام دینے‘ قومی سطح پر جدید تعلیم کے منصوبوں کو نافذ کرنے‘ پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں مصنوعی ذہانت سے متعلق کورسز متعارف کرنے اور آہستہ آہستہ پروگرامنگ تعلیم کو فروغ دینے پر مبنی حکمت عملی ہے۔ چین کے صوبہ گوانگژو میں حکام نے ستمبر 2023ء سے مصنوعی ذہانت کو سالانہ نصاب میں شامل کیا ہے۔ چین نیورومورفک کمپیوٹنگ کے ذریعے انسانی اور مصنوعی ذہانت کو ضم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز (آئی سی ٹی) سمٹ میں کہا گیا تھا کہ مصنوعی ذہانت تعلیم کے عمل اور اس کے مستقبل کو تبدیل کر سکتی ہے۔جرمنی میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار انٹیلی جنٹ سسٹمز جیسے ادارے مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مصنوعی ذہانت کی تعلیم و تربیت کی حوصلہ افزائی اور ہم آہنگی کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے ادارے ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں مصنوعی ذہانت سے استفادہ کیا جائے۔ حکومت اسلام آباد میں اے آئی سٹی اور صوبائی سطح پر اے آئی یونیورسٹیوں کے قیام پر غور کر سکتی ہے اور مصنوعی ذہانت کو شعبہئ تعلیم میں رائج کرنے کے لئے دوسروں کے تجربات اور اُن کے ساتھ مل کر کام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ (مضمون نگار سینٹر فار انٹرنیشنل میں ریسرچ آفیسر ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر روبینہ شوکت۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔