امریکہ اور چین کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں جنہیں عرف عام میں امریکہ اور چین کی دشمنی بھی کہا جاتا ہے دنیا کے لئے متعدد مضمرات رکھتا ہے۔ دریں اثنا پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کئی دہائیوں پر محیط ہے اور اس میں باہمی اعتماد بھی سرایت کر چکا ہے۔ نائن الیون کے بعد‘ جب امریکہ اور اس کے اتحادی جنگوں میں الجھے اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور لاکھوں افراد کو ہلاک کرنے میں مصروف تھے تب چین نے خاموشی سے معاشی تعاون اور ترقی پر توجہ مرکوز کی۔ اس دور کا اختتام دوہزارپندرہ میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اس وقت بی آر آئی میں تقریباً ڈیڑھ سو ممالک شریک ہیں اور ان میں پاکستان بھی شامل ہے تاہم امریکہ اس پیش رفت کو اپنی عالمی بالادستی چیلنج کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔ نتیجتاً چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو امریکہ اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے سیاسی اور سفارتی مخالفت کا سامنا ہے اور دشمن قوتوں کی جانب سے دہشت گرد حملوں کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے جو ہماری سلامتی اور معاشی مشکلات میں اضافہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا¿ اس کی ترجیحات میں نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے جو پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات سمیت علاقائی سلامتی کی حرکیات کو متاثر کرتی ہے۔ اس تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کو ’خطرناک ترین ریاست‘ قرار دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔امریکہ اور چین کی قومی سلامتی کی حکمت عملیوں پر غور کیا جائے تو ان کے مقاصد‘ طریقوں اور ذرائع میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ سب سے پہلے امریکہ ہو اور امریکہ اپنی مادر وطن کے تحفظ یعنی داخلی و خارجی سلامتی پر زور دیتا ہے جبکہ چین قومی احیا اور عظیم چین کے خواب پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ معاشی ترقی‘ سیاسی استحکام اور سماجی ہم آہنگی چین کی ترجیحات میں شامل ہیں جبکہ امریکہ کی ترجیح فوجی طاقت‘ معاشی خوشحالی اور سیاسی قیادت‘ ہیں۔ چین عدم مداخلت اور تعاون پر زور دیتا ہے جبکہ امریکہ طاقت کے ذریعے امن چاہتا ہے۔امریکہ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی 2022ءمیں کہا گیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین واحد حریف ہے جس کا مقصد بین الاقوامی نظام کو نئی شکل دینا ہے اور اس مقصد کے لئے معاشی‘ سفارتی‘ فوجی اور تکنیکی طاقت استعمال کی جائے۔ نیٹو نے بھی چین کو ”خطرہ“ قرار دیا ہے۔ اٹلی میں ہونے والے حالیہ جی سیون سربراہ اجلاس کے حوالے سے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ کو ضرر رساں قوت قرار دینے والے اٹھائیس حوالہ جات سامنے آئے جن میں کہا گیا کہ چین جی سیون کے مخالفین کی فہرست میں شامل ہے۔ امریکی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ ممالک جن کے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات ہیں وہ اس کے دوست نہیں ہو سکتے۔یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں اور ایران کے درمیان جاری کشمکش کی وجہ سے امریکہ اور چین دشمنی مزید بڑھ گئی ہے۔ روس اور شمالی کوریا کے درمیان تعاون اور چین کا نیا منظور شدہ قانون جس کے تحت اس کے کوسٹ گارڈکو غیر قانونی طور پر چین کی سمندری حدود میں داخل ہونے والے غیر ملکی بحری جہازوں کو ضبط کرنے اور غیر ملکی عملے کو ساٹھ دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے‘ آنے والے دنوں میں پہلے سے موجود کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ ان پیش رفتوں نے ابھرتے ہوئے عالمی اسٹریٹجک میٹرکس اور اس کے نتیجے میں آنے والی ایک نئی سرد جنگ کی ایک نئی جہت متعارف کرائی ہے‘ جو اصل سرد جنگ سے کردار اور اثرات میں بہت مختلف ہے۔ یہ خراب ماحول ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جو پاکستان جیسے چھوٹے ممالک کے لئے خارجہ پالیسی کی لچک کو محدود کرتا ہے اور کچھ کو اسٹریٹجک شراکت داروں کے طور پر حریف کیمپوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے جیسا کہ بھارت نے کیا ہے۔ جغرافیائی و سیاسی دشمنی بین ریاستی اور بین العلاقائی اقتصادی تعاون کو بھی روکتی ہے‘ جس سے بہت سے ممالک کو اپنی سماجی و اقتصادی مشکلات پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق‘ چین کی معیشت جو اس وقت دوسری سب سے بڑی عالمی معیشت ہے، سال دوہزارتیس تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے چین آہستہ آہستہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس نے ایک دہائی کے اندر اپنے دفاعی اخراجات کو پینسٹھ ارب ڈالر سے بڑھا کر 178 ارب ڈالر کر دیا ہے جس میں اپنی بلیو واٹر نیوی کو جدید بنانے اور بیرون ملک نئے بحری اڈوں کی تعمیر پر اضافی توجہ دی گئی ہے۔ دی اکانومسٹ نے پندرہ جون دوہزارچوبیس کو اپنی ایک کور اسٹوری میں چین کو عالمی سائنسی سپر پاور قرار دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ، یورپ اور جاپان کے زیر تسلط پرانا سائنسی عالمی نظام آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ چین کے ساتھ وسیع اقتصادی تعلقات کی وجہ سے‘ امریکہ اور اس کے شراکت داروں کے درمیان چین پر قابو پانے کے معاملے پر کچھ بھی اختلافات نظر آتے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رضا۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
دوسری طرف ہم آہنگی کے فقدان اور گرتی ہوئی معیشت جیسے مسائل سے نبرد آزما پاکستان کسی بھی علاقائی یا غیر علاقائی ملک کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چین اور امریکہ پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر برآمدات امریکہ کو ہوتی ہیں جبکہ اس کی سب سے بڑی ایف ڈی آئی اور درآمدات چین سے ہوتی ہیں۔ امریکہ اب بھی ایک اہم فوجی‘ تکنیکی اور اقتصادی طاقت ہے جس کا بین الاقوامی سیاست پر زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اس پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے سے نمٹنے‘ اپنے مفادات کے تحفظ اور خطے میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرنے کے لئے پاکستان کو عملی‘ متحرک اور لچکدار نکتہ نظر اپنانا ہوگا۔ پاکستان کو کبھی بھی عالمی فریقوں میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے بلکہ تعلقات کو ’دوسرے کے مفادات سے آزاد‘ اُور الگ طریقے سے منظم کرنا چاہئے۔ پاکستان کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ بین الاقوامی تعلقات پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے‘ انسداد منشیات‘ موسمیاتی انحطاط کے اثرات کم کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں‘ توانائی کے منصوبوں میں تعاون‘ تجارتی اور اقتصادی تعاون جیسے شعبوں میں مشترک مفادات پر مبنی ترجیحات تشکیل دی جانی چاہیئں اور یہ بھی ضروری ہے کہ بیرونی طاقتوں پر انحصار کم کیا جائے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کو فروغ دینے اور وسیع شراکت داری قائم کرنے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی فورمز میں فعال طور پر حصہ لینا چاہئے۔ نوجوان ایک عظیم سرمایہ ہونے کے ساتھ چیلنج بھی ہیں جسے مفید عالمی شہری بننے کے لئے تعلیم اور تربیت (گرومنگ) کے ذریعے نادر موقع میں تبدیل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔