ڈیجیٹل پاکستان

ترقی کا راز شعبہئ زراعت میں سرمایہ کاری ہے جن ممالک نے زراعت کو ترجیح دی اور اسے اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا‘وہاں غذائی تحفظ کی صورتحال وقت کے ساتھ بہتر ہوئی تاہم جیسے جیسے عالمی معیشت ترقی کر رہی ہے‘ بہت سے ممالک کی ترجیح زراعت کی بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) بن چکی ہے اور وہ اپنے وسائل اِس شعبے پر مرکوز کر رہے ہیں۔ آئی ٹی کو اقتصادی ترقی کے ایک اہم محرک کے طور پر تسلیم بھی کیا جا رہا ہے۔ ترجیحات کی اِس منتقلی میں‘ بڑھتی ہوئی معیشت کے فروغ کے لئے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے پر زور شامل ہے اور مستقبل میں قوموں کو آگے بڑھانے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بے پناہ صلاحیت سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا گیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں‘ پاکستان نے اپنے آئی ٹی شعبے کو درپیش چیلنجوں کو اجاگر کیا ہے‘ جس سے ملک کی سب سے تیزی سے پھیلتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک میں دراڑیں پیدا ہوئی ہیں۔ آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس (انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سے متعلق خدمات) کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں بھی اہم ہے‘ جو ملک کی جی ڈی پی کا تقریبا ًایک فیصد ہے اور یہ تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر بنتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے نے گزشتہ چار سالوں میں اپنی پیداوار کو دوگنا کر دیا ہے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلے دو سے چار برس میں اس میں مزید ایک سو فیصد اضافہ ہوگا‘ جو ممکنہ طور پر سات ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا تاہم
 یہ ترقی متاثر کن ہونے کے باوجود بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے‘ جہاں آئی ٹی کے شعبے بہت تیز رفتار سے پھیل رہے ہیں۔ یہ عدم مساوات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کو علاقائی اور عالمی منڈیوں میں مسابقت برقرار رکھنے کے لئے اپنے آئی ٹی انفراسٹرکچر اور پالیسیوں میں چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر آنے والے ہفتوں میں پاکستان میں انٹرنیٹ کا مسئلہ برقرار رہا تو ملک کو بڑے معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے پہلے ہی متنبہ کر رکھا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش سے معیشت کو تیس کروڑ ڈالر تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ خطرناک اعداد و شمار ملک کی حالیہ انٹرنیٹ سے جڑے وسیع تر مسئلے کی نشاندہی کر رہے ہیں‘ جس کا پہلے ہی آئی ٹی برآمدات پر منفی اثر پڑا ہے۔ صرف جون میں پاکستان نے آئی ٹی برآمدات میں 298ملین ڈالر کا اضافہ ریکارڈ دیکھا گیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 33فیصد زیادہ ہے۔ جون 2024ء میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران آئی ٹی برآمدات کی مالیت تین اعشاریہ دو ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال ڈھائی ارب ڈالر تھی۔ تاہم اگر انٹرنیٹ کی موجودہ رکاوٹیں جاری رہیں تو یہ فوائد خطرے میں پڑ جائیں گے‘ جس سے اس اہم شعبے کی رفتار کم ہو جائے گا۔حالیہ انٹرنیٹ رکاوٹوں نے ملک کو جمود کا شکار کر دیا ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک مستحکم اور قابل اعتماد انٹرنیٹ انفراسٹرکچر پر منحصر ہو گیا ہے۔ اکیس اگست دوہزارچوبیس کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے اجلاس کے دوران پی ٹی اے کے چیئرمین نے راقم الحروف کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت کا ویب مینجمنٹ سسٹم اپ گریڈ ہو رہا ہے‘ فائر وال پر عمل درآمد نہیں ہو رہا جیسا کہ کچھ لوگ دعویٰ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان خدشات کو مسترد کر دیا کہ انٹرنیٹ کو جان بوجھ کر بند کیا جا رہا ہے۔ ان وضاحتوں کے باوجود‘ جاری مسائل ملک کی قابل اعتماد آئی ٹی بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کے بارے میں سنگین خدشات پیدا کرتے ہیں۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ اگرچہ پاکستان ایک پھلتا پھولتا زرعی معاشرہ ہے لیکن مستقبل آئی ٹی کا ہے۔ اگر پاکستان کو اپنے بڑھتے ہوئے آئی ٹی سیکٹر کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے تو یہ احساس بہت ضروری ہے‘ ان رکاوٹوں کا پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد فری لانسرز پر گہرا منفی اثر پڑا ہے جو اپنا کام کاج کرنے کے لئے موبائل ڈیٹا پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یہ فری لانسرز نہ صرف انفرادی کارکنوں کی
 نمائندگی کرتے ہیں بلکہ پانچ خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اُور ان کی آمدنی کا انحصار انٹرنیٹ پر ہے۔ ان رکاوٹوں کے اثرات معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سے فری لانسرز پاکستان کیلئے زرمبادلہ کمانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے آن لائن لیبر انڈیکس کے مطابق پاکستان عالمی آن لائن افرادی قوت کو لیبر فراہم کرنیوالے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے‘ ایک ایسے ملک میں جہاں مناسب روزگار کے مواقع بہت کم ہوں اور وہاں بہت سے نوجوان مرد اور خواتین نے فری لانسنگ کر رہے ہوں تو انٹرنیٹ نہ صرف انہیں مستحکم آمدنی فراہم کرتا ہے بلکہ ملک میں انتہائی ضروری زرمبادلہ بھی لاتا ہے۔  تاہم انٹرنیٹ مسائل کی وجہ سے پاکستانی کے یہ گیگ ورکروں کی ساکھ خطرے میں پڑ گئی ہے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صنعتی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ فائر وال جیسے پابندیوں کے نفاذ کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوسکتے ہیں‘ جس سے ممکنہ طور پر عالمی ڈیجیٹل معیشت میں پاکستان کی ساکھ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اگر حکومت واقعی نوجوان نسل کی مدد کرنا چاہتی ہے تو اسے آئی ٹی کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے رکن ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر شرمیلا فاروقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)