امریکہ: دانشمندی اور غلط فہمی 

رواں برس امریکہ میں صدارتی انتخابات کا موسم ہے اور سیاست دانوں کے لئے‘ یہ وقت قومی پالیسیوں پر بات کرنے کا ہے جس کسی نے بھی ستائیس جون کو ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر بائیڈن کے درمیان ٹی وی مباحثہ دیکھا یا اب تک دونوں طرف سے انتخابی مہم کی تقاریر اور میڈیا انٹرویو ز سنے ہوں گے وہ یہ دیکھ کر ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات پر بات چیت کتنی لاپرواہی‘ بے حسی اور سخت لب و لہجے میں کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں غلط رائے عامہ‘ مسائل کی سیاست اور اشرافیہ کے مفادات‘ یہ سب امریکی خارجہ تعلقات کے بارے میں تصورات اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں لیکن اس کی ایک چھوٹی سی وجہ اور بھی ہے۔ امریکہ دنیا کو نہیں سمجھتا اور ایسا لگتا ہے کہ اسے ناسمجھ ہونے کی پرواہ بھی نہیں ہے۔ امریکیوں کا تجربہ‘ امارت اور خود ساختہ وجود انہیں کسی دوسری عالمی طاقت پر منحصر نہیں بناتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی مغرور اور اکثر حد سے زیادہ برداشت کرنے والے دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح وہ ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کرنے اور دیگر معاشروں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر دوسری جنگ عظیم میں فتح اور اس کے بعد سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد سے ناگزیر‘ غیر معمولی اور نجات دہندہ قوم کی برتری جیسے احساسات نے یہ سوچ دی ہے کہ امریکیوں 
کو دیگر معاشروں کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ اپنے طویل المیعاد تنہائی پسند رویئے کی وجہ سے بیرونی دنیا سے مکمل طور پر جڑے بغیر سپر پاور ہے اور جب اس نے اپنے ساحلوں سے باہر کی دنیا سے تعلقات قائم کرنا شروع کئے تو یہ پہلے ہی ایک بڑی طاقت تھی جس میں سپر پاور بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تاریخ میں کبھی بھی امریکہ نے دوسرے ممالک کے ساتھ برابری کا رشتہ نہیں رکھا۔ اس کا تعلق ایک زبردست فوجی اور معاشی طاقت رہا اور یہ ہمیشہ قومی طاقت یا اخلاقی مقاصد کی برتری محسوس کرتا تھا۔ اپنی انفرادیت‘ فوجی اور معاشی طاقت‘ ترقی یافتہ جمہوریت اور سیاسی اداروں کے ساتھ جدت کی طاقت آزادی اور انفرادیت کے مضبوط احساس پر فخر کی وجہ سے امریکیوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ ان کا نظام ان کی اقدار اور ان کا سوچنے کا طریقہ نہ صرف بہترین ہے بلکہ واحد اچھا طریقہ بھی ہے۔ وہ بیرونی دنیا کو صرف اپنی شرائط کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور وہ دوسروں کو اپنے نکتہ نظر کے مطابق تبدیل کرنے کی کوشش کو اخلاقی طور پر جائز محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا طریقہ اتنا اچھا ہے کہ اس کی وضاحت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ایک غیر معمولی قوم کی حیثیت سے امریکہ نے غیر معمولی سلوک روا رکھا ہوا ہے اور وہ اس کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ ایک عام امریکی خارجہ امور کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ ان کا عالمی نکتہ نظر بہت سادہ ہے۔ زیادہ تر امریکیوں کے پاس اپنی تاریخ اور ثقافت کا کوئی تصور نہیں۔ یہ وہ رائے دہندگان ہیں جن کی رائے انتخابات میں اہمیت رکھتی ہے اور یہی وہ رائے ہے جو بڑی حد تک خارجہ پالیسی تشکیل دیتی ہے۔ واشنگٹن نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ جنگ میں جاتے وقت‘ خاص طور پر کمزور یا ٹوٹے پھوٹے معاشروں کو شناخت اور مذہبی مسائل‘ ناقص حکمرانی‘ طاقت کے عدم توازن‘ سلامتی کے خطرات‘ ریاست اور قوم کی تعمیر کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنے مشترکہ اقدام کے ذریعے پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان انتخابات کے ذریعے اقتدار میں واپسی کا معاہدہ کیا تھا۔ اس سے پرویز مشرف کو اس امید میں ایک سویلین راستہ ملے گا کہ وہ واشنگٹن کی مرضی کے مطابق کام کرتے رہیں گے۔ امریکیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنے غیر مقبول ہو گئے ہیں اور 
وہ جلد ہی اقتدار سے محروم ہو گئے۔ شاہ ایران کو جمی کارٹر نے اس امید میں انسانی حقوق میں نرمی لانے کے لئے کہا تھا کہ وہ کم غیر مقبول ہو جائیں گے لیکن امریکہ کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ آنے والی آزادیوں کو حزب اختلاف اسے باہر نکالنے کے لئے استعمال کرے گی۔ امریکہ کے ساتھ منصفانہ طور پر بات کریں تو اس نے چیلنجوں سے نمٹنے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو مکمل طور پر فوجی (جیسے دو عالمی جنگیں جیتنا) یا خالص اقتصادی اور مالی (جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا قیام اور دوسری جنگ عظیم کے بعد انتہائی ضروری بین الاقوامی نظام کی کچھ جھلک پیدا کرنا) ہیں۔ یہ سوویت یونین اور بعد میں روس کی طرح بڑی فوجی اور معاشی طاقتوں کو روکنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔ آخر میں‘ اس نے انسانی چیلنجوں سے نمٹنے میں نمایاں طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی قابل ستائش بین الاقوامی کاوشوں کو دیکھنا چاہئے جو سونامی ہو یا ہیٹی یا دوہزارپانچ میں پاکستان کا زلزلہ اور پھر دوہزاردس میں آیا سیلاب‘ جن میں امریکہ نے پاکستان کی ہر شعبے میں مدد کی تھی۔ (مصنف سابق سفیر جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں وزیٹنگ سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر توقیر حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن امام)