امریکہ کی جانب سے سال دوہزاربائیس میں خطے کا نام ایشیا بحرالکاہل سے بدل کر انڈو پیسیفک کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ اقدام انڈو پیسفک اسٹریٹجی جسے آئی پی ایس بھی کہا جاتا ہے کا حصہ ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ چین کو عالمی طاقت کے طور پر آزادانہ طور پر ابھرنے سے روکا جائے اور اِس مقصد کے لئے امریکی حکمت عملی میں بھارت کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن یا کملا ہیرس کے مؤقف میں زیادہ فرق نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ وہ کس حوالے سے بیان بازی سے گریز کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چین نے خطے کے نام کی اس تبدیلی کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے اور وہ اسے اب بھی ایشیا بحر الکاہل خطہ کے نام ہی سے پکارتا ہے۔ درحقیقت‘ چین نے آئی پی ایس کے مقصد کو بھانپ لیا ہے اور وہ اسے ”چین کو نشانہ بنانے والا ایک امریکی تصور“ قرار دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ غیر متوقع طور پر‘ پاکستان نے خطے کے لئے امریکی سرپرستی میں نام کی تبدیلی کے بارے میں غیر واضح مؤقف اختیار کیا ہے اگرچہ دفتر خارجہ خطے کو ایشیا بحرالکاہل کا نام دیتا ہے لیکن پاکستان نے خطے کے نام کی اِس تبدیلی کو واضح طور پر مسترد نہیں کیا اور کوئی بھی تجویز کہ پاکستان نے نام کی تبدیلی کو واضح طور پر قبول کر لیا ہو‘ وہ بھارت کو بہت پسند آئے گی جس کے نام پر پہلے ہی ایک سمندر ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے چین پریشان ہو جائے گا جو خود سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیا پاکستان کی موقع پرست حکمران اشرافیہ پر امریکی عالمی اور بھارتی علاقائی بالادستی کے خلاف مزاحمت کے لئے انحصار کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ایشیا بحرالکاہل کا خطہ ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے اہم جغرافیائی سیاسی‘ اور اقتصادی تھیٹر بن کر ابھرا ہے۔ اس صدی کے بقیہ حصے کے لئے دنیا کا جغرافیائی نقشہ اس خطے میں ہونے والی پیش رفت سے طے ہونے کا امکان ہے۔ اس میں مشرقی ایشیا‘ جنوبی ایشیا‘ مغربی بحر الکاہل اور بحر ہند شامل ہیں۔ یہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہے اور عالمی معیشت کا تقریباً دو تہائی حصہ رکھتا ہے۔ اس کے پاس دنیا کی سات بڑی فوجیں ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے جو چھٹے نمبر پر ہے۔ امریکی آئی پی ایس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیٹو ٹرانس اٹلانٹک سکیورٹی آرگنائزیشن سے عالمی تسلط پسند جغرافیائی تنظیم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ چین پر قابو پانے کے علاؤہ اس کا مقصد ”اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظام“ قائم کرنا بھی ہے جس کے مطابق امریکہ قوانین بناتا ہے اور جب چاہے تو قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے جبکہ روس اور چین سمیت باقی بین الاقوامی برادری رضاکارانہ یا غیر ارادی طور پر ان کی پیروی کرتی ہے۔ ”نئی سرد جنگ“ میں امریکہ نے نیٹو کو روس کی سرحد تک بڑھا دیا ہے۔ فوجی‘ مالی اور سفارتی طور پر مشرق وسطیٰ میں نسل کشی کی حمایت ہو رہی ہے۔ اسی طرح لبنان اور ایران تک عالمی جنگ پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ بھارت کو چین کے خلاف اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر مضبوط بنایا جا رہا ہے۔ اس نے بتدریج ون چائنا پالیسی کو ختم کیا ہے اور تائیوان کو مشرقی ایشیا میں اپنا ناقابل تسخیر طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے۔ کواڈ (جس میں آسٹریلیا، جاپان، بھارت اور امریکہ شامل ہیں) قائم کرنا بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ اے یو کے یو ایس (جس میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں) جاپان جنوبی کوریا اور بھارت کے ساتھ امریکہ کی زیر قیادت دیگر سہ فریقی دفاعی اتحاد ہے۔ امریکہ نے آسیان کے ساتھ اپنے تعلقات کو جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی صورت تبدیل کیا ہے حالانکہ مجموعی طور پر‘ آسیان ممالک امریکہ اور چین کے مابین توازن برقرار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ چین امریکہ کے مقابلے میں ان کے لئے ایک مضبوط تجارتی اور سرمایہ کار شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے تاہم امریکہ نے جاپان، جنوبی کوریا، ویت نام، فلپائن اور تھائی لینڈ کے ساتھ اپنے سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنایا ہے۔ اس نے بلیو پیسیفک میں پارٹنرز اور ایک نئی یو ایس میکونگ پارٹنرشپ بھی شروع کی ہے۔ یہ تمام انتظامات چین کے خلاف ”نئی سرد جنگ“ جیتنے کے لئے امریکہ کی بحر ہند و بحرالکاہل کی حکمت عملی کا حصہ ہیں کیونکہ اس نے سوویت یونین کے خلاف آخری سرد جنگ جیتی تھی۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اشرف جہانگیر قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
بدقسمتی سے امریکہ کے لئے‘ چین بالکل مختلف قسم کی حقیقت ہے۔ یہ سوویت یونین کے مقابلے میں امریکی عالمی بالادستی کے لئے کہیں زیادہ جامع چیلنج ہے۔ خاص طور پر اپنی ڈی ڈالرائزیشن مہم کے ذریعے چین بین الاقوامی تجارت، سرمایہ کاری اور مالیاتی نظام پر امریکی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے۔پاکستان فی الحال، ایشیا بحر الکاہل کے خطے کا حصہ ہونے اور چین کے ساتھ اپنے اقتصادی و دفاعی تعلقات کی وجہ سے بحر ہند کا ملک ہونے کے باوجود آئی پی ایس سے باہر ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو محدود کرنا چاہتا ہے اور وہ سی پیک کو بھی کمزور کرنا چاہتا ہے جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔ اگر امریکہ پاکستان اور چین کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ چین کے بارے میں اپنی حکمت عملی میں بھارت کے اعتراضات کو بھی دور کر سکتا ہے۔ اس صورت میں اگر پاکستان باضابطہ طور پر جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اپنے بنیادی وعدوں سے انحراف نہیں کرتا تو بھارت کے خلاف اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا بند کر سکتا ہے اور جنوبی ایشیا میں بھارت کی علاقائی بالادستی کو مؤثر طریقے سے قبول کر لیتا ہے تو بھارت بھی پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ یقینا مسئلہ پاکستان کے عوام کا ہے جو چین کے ساتھ اپنی دوستی اور تعاون پر اعتماد کرتے ہیں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے عوام بھی امریکہ کے ساتھ تعاون پر مبنی اور غیر جبری تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران امریکہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی خاطر خواہ امداد کو سراہتے ہیں۔ تاہم امریکہ پاکستان کو ایک فریب کے طور پر دیکھتا ہے‘ جس پر کئی پہلو ہیں اور ان پہلوؤں میں سے کئی ایک پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مستحکم‘ محفوظ اور خوشحال پاکستان جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایشیا کی دو بڑی طاقتوں اور آج کی دو عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔