غذائی بحران

غذائی قلت بحرانی صورت اختیار کر گئی ہے اور یہ پاکستان میں بالخصوص بچوں کی جسمانی نشوونما کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کے لئے غذائی بحران بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ پاکستان میں غذائی قلت کی عالمی شرح (جسے جی اے ایم بھی کہتے ہیں)کی شرح 17.7فیصد ہے اور یہ ہنگامی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے ہر دس میں سے چار بچے جسمانی نشوونما کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غذائی قلت کا بوجھ تیزی سے ظاہر ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے تقریباً تین میں سے ایک بچہ (28.9فیصد) کا وزن کم ہے۔ مجموعی طور پر تقریباً تیس فیصد بچوں کا وزن کم ہے اور چوالیس فیصد کی نشوونما کم ہے جبکہ انچاس فیصد خواتین معمولی طور پر خون کی کمی کا شکار ہیں۔پاکستان کی آبادی تیئس کروڑ سے زیادہ ہے۔ آبادی کے یہ اعدادوشمار دوہزاربائیس کے ہیں اور اس لحاظ سے ممالک کی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی 2023ئء) کو دیکھا جائے تو پاکستان کی عالمی درجہ بندی 126ممالک میں سے 99ویں نمبر پر ہے۔ تقریباً 86 لاکھ افراد(چوبیس فیصد) شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق بلوچستان کے 32 سندھ کے 20 اور خیبر پختونخوا کے 17اضلاع اور نئے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع غذائی بحران کی وجہ سے آفت زدہ ہیں کیونکہ اِن اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 48 فیصد بچوں کی جسمانی نشوونما کم ہے۔غذائی ضرورت کسی وباء کی صورت ہوتی ہے جو عموماً خون کی کمی کا شکار ماں کے رحم سے شروع ہوتی ہے اور دودھ پلانے کے دوران شدت اختیار کر جاتی ہے۔ کسی بچے کے لئے اس کی زندگی کے ابتدائی سال اعصابی نشوونما کی کلید ہوتے ہیں جس میں نئے نیورونز کی تشکیل ہوتی ہے اور وہ بصارت، سماعت، چھونے، ذائقہ اور سونگھنے جیسے محسوسات حاصل کرتا لیکن اگر غذا کم ہو تو یہ احساسات اسے پوری طرح حاصل نہیں ہو پاتے۔ پاکستان کی سیاسی
 قیادت اور فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ بچوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کی غذائی ضروریات ترجیحی بنیادوں پر پورا کریں اور اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کو بچوں کو خوراک دی جائے۔ اگر ہم بچوں کو ملنے والی غذا کو دیکھیں تو اس میں غذائیت کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ سکولوں میں بچوں کی داخلہ شرح بھی مایوس کن حد تک کم ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ تعداد سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا شمار ہے۔ سکول نہ جانے والے بچوں کی آبادی ناکافی خوراک اور غذائیت سے متاثر ہے جو غربت کا نتیجہ ہے۔ طالب علموں میں سیکھنے کا عمل غربت کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔مہنگائی (افراط زر)میں حالیہ اضافے نے چالیس فیصد آبادی کے لئے صحت مند کھانے کا حصول ناممکن بنا دیا ہے۔ وزارت صحت سائنسز اور یونیسیف کی جانب سے سال دوہزاراٹھارہ میں مرتب کئے گئے نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق ایسے اعدادوشمار موجود ہیں جو خواتین اور ماں میں بین النسل کم غذائیت ثابت کرتے ہیں جو بچوں اور بالآخر نوعمروں کی جسمانی نشوونما متاثر کر رہے ہیں اور انسانی سرمائے اور لیبر مارکیٹ کے نتائج پر بھی براہ راست اثرات مرتب کرتے ہیں۔سال دوہزارتیئس میں ورلڈ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بچوں کو ملنے والی خوراک میں غذائیت کی کمی کے باعث معیشت پر سالانہ 7.6 ارب ڈالر کا بوجھ پڑتا ہے اگرچہ وفاقی حکومت نے اِس حوالے سے ایک ٹاسک فورس برائے تعلیم بھی قائم کر رکھی ہے اور انسداد پولیو سے متعلق بھی ایک ٹاسک فورس موجود ہے لیکن بدقسمتی سے غذائی قلت اپنی جگہ موجود ہے اور بیماریوں سے بچوں کے تحفظ کی کوششیں بھی
 خاطرخواہ وسیع نہیں ہیں۔ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی امداد اور اقوام متحدہ کے شراکت داروں نے صرف بچوں اور دودھ پلانے والی ماں کے لئے غذائی تحفظ کو ضروری اور اہم قرار دیا ہے۔حکومت کی جانب سے پلاننگ کمیشن نے نیشنل نیوٹریشنل فورم کے تعاون سے سال دوہزارتیئس میں ساڑھے آٹھ ارب روپے مختص کرنے کے ساتھ تین سالہ کثیر الجہتی غذائی تحفظ پروگرام کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں حاملہ ماں کے جسمانی وزن میں اضافے اور بچوں میں اسٹنٹنگ کی روک تھام کے حوالے سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اس حکمت عملی کے تحت حاملہ خواتین کو نقد ادائیگی کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی خوراک بہتر بنا سکیں۔سال دوہزارتیئس میں یونیسیف کی مالی مدد سے پچاسی ہزار شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کا علاج معالجہ کیا گیا جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام غذائی قلت کے شکار بچوں اور دودھ پلانے والی ماں کا علاج کر رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں غذائی قلت کے خلاف جنگ میں پاکستان کوششیں کر رہا ہے اور ان کوششوں کو عالمی اداروں اور دوست ممالک جیسا کہ یونیسیف، ڈبلیو ایف پی اور ڈبلیو ایچ او جیسے اقوام متحدہ کے اداروں کی مدد و حمایت بھی حاصل ہے۔ نیشنل نیوٹریشن فورم سن پلیٹ فارم مقامی این جی اوز یونیسیف، ڈبلیو ایف پی، ڈبلیو ایچ او اور ورلڈ بینک غذائی قلت کی صورتحال اور اِس کی شدت سے نمٹنے کے لئے صف اول میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کو متعدد معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے اور اِس کی بڑی آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ یہ واضح ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اپنی پوری جسمانی صلاحیت حاصل کرے۔ یہ پارلیمنٹ میڈیا نجی شعبے اور ہم میں سے ہر ایک کی بھی ذمہ داری ہے کہ غذائی قلت کے سب سے اہم مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور اس سلسلے میں حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنائیں اور انہیں عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مہناز اکبر عزیز۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)