اکیس اگست کے روز منعقدہ پاکستان نیشنل یوتھ کنونشن سے خطاب اور ہارورڈ یونیورسٹی سے آئے طلبہ کے وفد سے علیحدہ ملاقات میں پاک فوج کے سربراہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا‘ ہم میں سے اکثر ’جنک فوڈ‘ کو غیرصحت مند خوراک قرار دیتے ہیں لیکن جس طرح ایک خاص قسم کا کھانا جنک فوڈ کی صورت خطرناک ہے اسی طرح غلط معلومات کی تشہیر کیلئے استعمال ہونے والا سوشل میڈیا بھی یکساں خطرناک ہے۔ جنک فوڈ اگر ہمارے جسم کو نقصان پہنچاتا ہے تو غلط معلومات ہمارے دماغ اور خیالات کیلئے نقصاندہ ہیں۔ سوشل میڈیا اور وائرل افواہوں کی طرح ذہنی جنک فوڈ ہمارے دماغوں کو بیکار اور نقصان دہ مواد سے بھر رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں بہت سے لوگ فاسٹ فوڈ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے‘ وہیں یہ ذہنی جنک فوڈ تقریباً ہر گھر تک پہنچ رہا ہے خاص طور پر اس سے نوجوان نسل اور وہ بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں سمارٹ فونز ہیں۔ جس طرح جنک فوڈ کو لذیذ اور نشہ آور بنانے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن اس میں حقیقی غذائیت نہیں ہوتی بالکل اسی طرح سوشل میڈیا پر موجود مواد بھی ہمیں ہر وقت مشغول رکھے ہوئے ہے اور یہ ہمارا قیمتی وقت تفریح کی نذر کر رہا ہے جسے ہم ”مینٹل جنک فوڈ“ کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان میمز‘ مشہور شخصیات کی گپ شپ اور سنسنی خیز خبروں کی تلاش میں گھنٹوں ضائع کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا الگورتھم انہیں اس اوچھے مواد سے جکڑے رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا غیرمحتاط اور حد سے زیادہ استعمال کا نتیجہ ایک ایسی نسل کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے جو شور اور الجھن میں گم ہو چکا ہے اور ہماری نسل حقیقت کو افسانے سے الگ کرنے سے قاصر ہو چکی ہے۔ پہلے سے کہیں زیادہ معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود سوشل میڈیا استعمال کرنیوالے غلط معلومات اور پروپیگنڈے کا شکار ہیں اور ان میں تیزی سے یہ حساس پیدا ہو رہا ہے کہ سچائی اور جھوٹ میں تمیز کرنے کیلئے ضروری ڈیجیٹل خواندگی کا فقدان ہے۔ یہ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کیلئے تشویش ناک صورتحال ہے‘ جہاں خواندگی کی شرح پہلے ہی کم ہے اور ڈیجیٹل خواندگی اس سے بھی کم پائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بے لگام معلومات کے سیلاب نے کسی بھی معنی خیز قومی مکالمے کو ناممکن حد تک مشکل بنا دیا ہے اور اس کی وجہ سے اہم قومی مسائل سے توجہ ہٹ چکی ہے۔ لوگ غلط معلومات کا شکار ہیں اور فضول باتوں کی نشاندہی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ تنقیدی سوچ اور تجزیاتی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے بجائے سوشل میڈیا جھوٹ‘ سازشی نظریات اور سراسر جھوٹ پھیلانے کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ درست معلومات کی قدر اگرچہ موجود ہے اور اس پر لاگت بھی کم آتی ہے لیکن اس کے حصول کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ صرف ایک کمپیوٹر اور انٹرنیٹ رکھنے والا صارف ایسا مواد تخلیق کرسکتا ہے جو پیشہ ورانہ نظر آئے لیکن وہ غلطیوں سے بھرا ہوا ہو۔ الگورتھم‘ جو ہمیں باخبر رکھنے کے بجائے ہمیں مصروف رکھنے کیلئے بنایا جاتا ہے ایسے غلط معلومات پر مبنی مواد کو تیزی سے پھیلاتا ہے اور یہ آن کی آن یعنی منٹوں میں ہزاروں بلکہ کبھی کبھار لاکھوں افراد تک پہنچ جاتا ہے۔ جھوٹ اڑتا ہے اور سچ اس کے بعد لنگڑاتا ہے‘ یہ واضح طور پر اس وقت ظاہر ہوا جب لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ڈالر کمانے کیلئے برطانیہ میں لڑکیوں کے قتل میں مسلمان شخص کے ملوث ہونے کی جھوٹی خبر پھیلائی‘ جعلی خبروں کی وجہ سے برطانیہ میں مسلمانوں کیخلاف مظاہرے ہوئے اور جب تک سچائی سامنے آئی اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا۔ پرانے طرز کی غلط معلومات کے پھیلاؤ کے مقابلے آج حقائق کے بغیر معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہ نئی غلط معلومات سائنس‘ اعداد و شمار اور یہاں تک کہ ریاضی کو بھی قابل اعتماد بنا کر پیش کرتی ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام لوگوں کو یہ سکھانے پر توجہ نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی موضوع پر ملنے والی معلومات کا تنقیدی تجزیہ کیسے کریں۔ اس کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگ بھی تکنیکی غلط معلومات سے بآسانی گمراہ ہو جاتے ہیں۔ میڈیا پلیٹ فارمز‘ خاص طور پر پرنٹ میڈیا‘ حقائق پر مبنی اور اچھی طرح سے جانچ پڑتال کئے گئے مواد کی تشہیر پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے لیکن آن لائن وسائل سنسنی خیزی پھیلا رہے ہیں۔ آج جو سرخیاں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرتی ہیں وہ درست حقائق کا نہیں بلکہ ایسے جذبات کو بھڑکاتی ہیں جن پر نفرت کا غلبہ ہو۔ یہ رجحان دنیا بھر میں پایا جاتا ہے‘ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے تنقیدی سوچ اور تعلیم کی اہمیت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو نہ صرف طلبہ کو یہ سکھانا چاہئے کہ معلومات تک کیسے رسائی حاصل کی جائے بلکہ درست معلومات کی کھوج و اہمیت سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ حقائق کی جانچ پڑتال فطرت اور عادت بن جائے۔ جیسے جیسے معاشرہ ڈیجیٹل ہوتا جا رہا ہے‘ بنیادی طور پر تعلیمی ادارے‘ تھنک ٹینکس‘ معروف صحافی اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگلی نسل کو اس پیچیدہ منظر نامے کو سمجھنے کے قابل بنائے اور سمجھ داری و دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے تیار کرے۔ ڈیجیٹل دور میں حقائق‘ متوازن معاشرے کی تعمیر میں مدد دے سکتے ہیں جیسا کہ ہم بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو اس دور میں درست معلومات پر مبنی بامعنی مواد کو ترجیح دینے سے نہ صرف افراد بلکہ قومی اجتماعی فلاح و بہبود جیسے اہداف کا حصول بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زاہد اصغر۔ ترجمہ ابوالحسن امام)