عالمی آبادی اور اضافہ

ایک صدی کے دوران، عالمی آبادی میں اضافہ حیرت انگیز اور تشویشناک ہے کیونکہ ایک سو سال میں ساڑھے چار ارب افراد کا اضافہ ہوا جبکہ فی الوقت دنیا کی آبادی تقریباً آٹھ ارب ہو چکی ہے، آبادی میں اضافے کی اس شرح کے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ سال دوہزارپچاس تک دنیا کی آبادی 9.7 ارب تک پہنچ سکتی ہے اور 2080ء کی دہائی تک 10.4ارب تک پہنچ سکتی ہے۔ انسانی آبادی میں اضافے کی کہانی طویل اور پیچیدہ ہے۔ زیادہ تر تاریخ میں، آبادی میں اضافہ سست رہا صرف 1800ء کے آس پاس دنیا کی آبادی پہلی مرتبہ ایک ارب تک پہنچی تاہم پچھلی دو صدیوں میں طب، زراعت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے اس آبادی میں ڈرامائی تیزی دیکھنے میں آئی جس نے شرح اموات کو بھی کم کیا ہے اور شرح پیدائش میں اضافہ ہوا ہے۔ آبادی میں یہ تیزی سے اضافہ اگرچہ انسانی ذہانت کا ثبوت ہے تاہم اس کے ساتھ سنگین نتائج بھی جڑے ہوئے ہیں جس سے عالمی استحکام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔بیسویں صدی کے دوران آبادی میں غیرمعمولی اضافے کے ساتھ سب سے اہم رجحانات میں سے ایک شہرکاری ہے۔ جیسے جیسے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوا، اسی طرح دیہی علاقوں سے لوگوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی بھی ہوئی، جو روزگار کے بہتر مواقع، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی تلاش میں تھے۔ بیسویں صدی کے آخر تک، دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی شہری علاقوں میں رہتی تھی، جس میں 1950ء میں صرف تیس فیصد کی شرح سے یعنی تیزی سے اضافہ تھا۔ شہروں میں آباد کاری کا یہ رجحان موجودہ صدی میں بھی جاری ہے اور اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ سال دوہزارپچاس تک دنیا کی تقریباً ستر فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہے گی۔شہری آبادی میں اضافے میں مواقع اور چیلنجز پوشیدہ ہیں۔ ایک طرف‘ اس نے معاشی ترقی‘ جدت اور ضروری خدمات تک رسائی کو فروغ دیا ہے تو دوسری طرف‘ اس کی وجہ سے بڑے شہروں کی توسیع ہوئی ہے‘ جس میں اکثر بھیڑ بھاڑ‘ ناکافی بنیادی ڈھانچے اور کچی آبادیوں کا پھیلاؤ شامل ہے۔ شہری مراکز میں آبادی کا ارتکاز ماحولیاتی دباؤ کو بھی بڑھاتا ہے‘ جس سے فضائی آلودگی‘ فضلے کو تلف کرنے اور اس سے جڑے مسائل‘ توانائی کی کھپت میں اضافہ شامل ہے۔ بیسویں صدی کی آبادی میں اضافے کی سب سے حیرت انگیز حقیقت ہے۔ اس میں دو عالمی جنگوں ہوئیں جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کے باوجود بھی آبادی بڑھی ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم نے مل کر لاکھوں افراد کی جانیں لیں، پھر بھی عالمی آبادی میں قریب پانچ ارب افراد کا اضافہ ہوا۔ آبادی میں اضافے کا مطلب علاج معالجے کی سہولیات‘ ادویات‘ زراعت اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہے اور یہ آبادی میں اضافے کی بڑے پیمانے پر نشاندہی کرتی ہے۔ اگر یہ جنگیں نہ ہوتیں تو آج عالمی آبادی اس سے بھی زیادہ ہوتی۔ ممکنہ طور پر کروڑوں کی تعداد میں‘ جس سے غذائی تحفظ اور ماحولیاتی استحکام جیسے چیلنجوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ یہ فرضی منظر نامہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ تباہ کن عالمی تنازعات کے باوجود آبادی میں اضافہ کس قدر لچکدار رہا ہے جیسا کہ عالمی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے‘ اسی طرح خوراک کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن زراعت میں ترقی نہیں ہو رہی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ زرعی طریقوں میں کچھ ممالک نے ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی محدود رہی ہے سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا کہ آبادی بڑھتی رہے لیکن غذائی تحفظ میں اضافہ نہ ہو؟ دنیا کی قابل کاشت زمین محدود ہو رہی ہے دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی خوراک کی پیداوار کے ضرورت کے درمیان توازن درہم برہم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔غذائی عدم تحفظ کا خطرہ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لئے زیادہ ہے اور اگر غذائی تحفظ اور غذائی وسائل میں اضافہ نہ کیا گیا تو اس سے تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے نے ایک اور اہم مسئلے کو بھی نمایاں کیا ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق ہے۔ جتنے زیادہ لوگ ہیں‘ توانائی، نقل و حمل اور رہائش کی مانگ اتنی ہی زیادہ ہے اور یہ سب گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کردار ادا کر رہے ہیں جس سے حیاتیاتی تنوع کا نقصان ہو رہا ہے۔آبادی میں اضافے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے درمیان تعلق ناقابل تردید حقیقت ہے۔ آبادی بڑھنے سے کرہئ ارض کے ماحولیاتی نظام پر دباؤ شدت اختیار کر رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے بڑھ اثرات بڑھ رہے ہیں جنہیں کم کرنا ہر دن پہلے سے زیادہ مشکل ہو رہا ہے۔ عالمی آبادی میں اضافہ دو دھاری تلوار ہے اگرچہ یہ انسانی ترقی کی عکاسی کرتا ہے لیکن یہ پائیدار ترقی کی فوری ضرورت کو بھی اجاگر کر رہا ہے۔ حکومتوں‘ بین الاقوامی تنظیموں اور برادریوں کو غذائی عدم تحفظ اور آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مل جل کر کام کرنا چاہئے۔ اس میں قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری‘ پائیدار زرعی طریقوں کا فروغ اور آبادی میں اضافے کو مستحکم کرنے والی پالیسیوں پر عمل درآمد جیسے اقدامات و انتظامات شامل ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مسعود لوہار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)