علاقائی اقتصادیات

جدید اقتصادی نظریہ یہ ہے کہ علاقائی اقتصادیات کو فروغ دیا جائے اور اس مقصد کے لئے تجارتی راہداریوں کے فروغ پر زور دیا جاتا ہے۔ بین العلاقائی اور بین العلاقائی تجارتی راہداریاں ترقی و خوشحالی کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ علاقائی رابطے تجارت کے فروغ کے لئے اہم ہیں‘ جس کے نتیجے میں، معاشی ترقی کو فروغ ملتا ہے۔ ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور ریل یا سڑک نیٹ ورکس کے ذریعے فضائی، زمینی اور سمندری رابطے علاقائی رابطوں کے فریم ورک میں خاص طور پر اہم ہوتے ہیں۔ ایشیائی خطے نے ابھی عالمی معیشت پر غلبہ حاصل کرنے کا سفر شروع کیا ہے، چین اور بھارت کے ساتھ پاکستان جیسے دیگر شراکت دار قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ جنوبی اور وسطی ایشیا عالمی اقتصادی منظر نامے میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، علاقائی رابطے ترقی اور خوشحالی کے کلیدی محرک کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ تقریباً ایک اعشاریہ نو ارب افراد کی مارکیٹ کے ساتھ یہ خطہ تجارت کے وسیع امکانات رکھتا ہے اور مختلف ممالک میں تقابلی فوائد سے فائدہ اٹھاتا ہے تاہم، علاقائی تنازعات اور عدم دلچسپی کی وجہ سے مجموعی تجارتی حجم صلاحیت سے بہت کم ہے۔ تجارت کو آسان بنانے کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی طرز پر ریلوے اور سڑکوں جیسے ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی بنیادی ضرورت ہے۔ بی آر آئی علاقائی رابطوں کو بڑھانے اور کم لاگت کے طریقوں کے ذریعے بین العلاقائی تجارت کو فروغ دینے کے لئے ایک مثالی فریم ورک پیش کرتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی کنیکٹیوٹی گاڑی کی لاگت اور ترسیل کے اوقات دونوں کو نمایاں طور پر کم کرسکتی ہے۔ اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان سے ازبکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں جیسے مقامات پر لے جانے والے سامان کی ترسیل کے اوقات میں اسی طرح کی کمی کے ساتھ مال برداری کی لاگت میں دو تہائی سے تین چوتھائی تک کمی آسکتی ہے۔ یہی بات چین اور ممکنہ طور پر بھارت پر بھی لاگو ہوتی ہے، جہاں مال برداری کے اخراجات اور ترسیل کے اوقات میں کمی تجارت کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔چین وسطی ایشیا مغربی ایشیا اقتصادی راہداری، جو اسے وسطی ایشیا کے راستے جزیرہ نما عرب سے جوڑتی ہے اقتصادی اور تجارتی تعاون کو فروغ دے رہی ہے اور اس سے ایران، سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک باہمی فائدے کے لئے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ اسی طرح چین انڈو چائنا جزیرہ نما اقتصادی راہداری چین کو ویت نام، لاؤس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، میانمار اور ملائیشیا کے راستے سنگاپور سے جوڑتی ہے جس سے چین اور آسیان ممالک کے مشترکہ مستقبل کو تقویت ملتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا تین ہزار کلومیٹر طویل فلیگ شپ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری مغربی چین کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان سے ملاتا ہے۔ اس راہداری سے بالآخر جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ کے تقریباً تین ارب افراد مستفید ہوں گے۔ ایک اور اہم منصوبہ بنگلہ دیش، چین، بھارت، میانمار اقتصادی راہداری ہے، جو جنوبی، جنوب مشرقی اور مشرقی ایشیا کو ملاتا ہے، جس سے تجارت اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے علاقائی رابطے میں اضافہ متوقع ہے۔ چین کی زیر قیادت ان اقتصادی راہداریوں نے نمایاں توجہ اور سیاسی ردعمل حاصل کیا ہے، جس کے نتیجے میں سال دوہزاراکیس میں جی سیون ممالک کی طرف سے تجویز کردہ بلڈ بیک بیٹر ورلڈ (بی تھری ڈبلیو) اور جی ٹوئنٹی ممالک کی طرف سے چند ماہ قبل نئی دہلی میں اعلان کردہ بھارت مشرق وسطی یورپ اقتصادی راہداری (آئی ایم ای سی) جیسے متبادل منصوبے سامنے آئے ہیں۔ بی تھری ڈبلیو، جسے عالمی انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کے لئے شراکت داری کا نام دیا گیا ہے، جی سیون ممالک کا اقدام ہے جس کا مقصد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے بی آر آئی کا متبادل تلاش و فراہم کرنا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ترقی پذیر معیشتوں میں بنیادی ڈھانچے کے چالیس سے زائد کھرب ڈالر کے فرق کو دور کرنا ہے اور انہیں چین کی زیر قیادت بی آر آئی کی طرح ترقی یافتہ ممالک سے جوڑنا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

عالمی تجارت میں چینی اثر و رسوخ کو مزید متوازن کرنے کے لئے، جی ٹوئنٹی ممالک نے ستمبر دوہزارتیئس میں نئی دہلی میں اپنے اجلاس کے دوران ایک اور اقتصادی راہداری، آئی ایم ای سی متعارف کروائی۔ اس راہداری کا مقصد مشرق وسطیٰ کے ذریعے بھارت کو یورپ سے جوڑ کر اقتصادی تعاون اور انضمام کو فروغ دینا اور بڑھانا ہے۔ دنیا تجارت میں نمایاں تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، اقتصادی راہداریاں اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی دنیا کی صف اوّل کی معیشتوں کے غلبے کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی جمہوریتیں چین کی سپلائی چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بی آر آئی کے تصور نے اقتصادی راہداریوں کی تخلیق کو فروغ دیا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کو چین کا مقابلہ کرنے کے لئے بلڈ بیک بیٹر ورلڈ (بی تھری ڈبلیو)، گلوبل انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کے لئے شراکت داری، اور حال ہی میں، ہندوستان مشرق وسطی یورپ اقتصادی راہداری (آئی ایم ای سی) جیسے اقدامات کی صورت جواب دینا پڑا ہے۔ دوسری طرف اقتصادی راہداریوں کی سیاست شدت اختیار کر رہی ہے اور نئی حقیقت یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں عالمی رہنما ممالک وہ ہوں گے جو ان اقتصادی راہداریوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے عالمی سپلائی چین کی کمان کریں گے۔جنوبی ایشیا میں تجارت وسیع پیمانے پر فوائد حاصل کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر سارک ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ پر توجہ دی جائے۔ یہ خطہ، جو دنیا کی تقریباً بائیس فیصد آبادی کا گھر ہے اور ایک منڈی یا مارکیٹ کے طور پر وسیع امکانات رکھتا ہے۔ اگر بھارت اپنے تسلط پسندانہ عزائم پر عمل کرنے کی بجائے ترقی پر مبنی مثال کو فروغ دے تو علاقائی تجارت کے ذریعے افراط زر اور غذائی تحفظ کے چیلنجوں سے بہتر طور پر نمٹا جا سکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارت اور تجارت جنوبی ایشیائی خطے میں افراط زر کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے راستے تجارت کو فروغ دینے کے لئے ایک نئی اقتصادی راہداری کی ضرورت ہے جس میں بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہوں، جو سی پیک کی تکمیل کرے اور خطے کو وسطی، جنوبی اور مشرق وسطیٰ کے ایشیا کے لئے اہم تجارتی مرکز کا کردار ادا کرے۔