ازسر نو معاشی بحالی

حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان ہوئے نئے معاہدے اور مزید قرضوں کے ذریعے معاشی بحالی کی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوگی جبکہ ضرورت اپنے وسائل کو ترقی دینے اور ازسرنو معاشی بحالی کی ہے۔ اِس مرحلہئ فکر پر یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاکستان آخر کب تک آئی ایم ایف کے جال میں پھنسا رہے گا؟ جب ایک ہی غلطی بار بار دہرائی جائے تو اُس کے بہتر نتائج یا مختلف نتائج کے برآمد ہونے کی توقعات نہیں رکھنی چاہیئں۔ اگر ملک کے معاشی مسائل اور بحران کو خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی تو یہ مزید گہرا ہو جائے گا۔ فی الوقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ”معاشی مسئلہ“ ہے اور اسے حل کرنے کے لئے ”قومی سطح پر ایمرجنسی (ہنگامی حالات) کا نفاذ“ ہونا چاہئے۔سال دوہزار آٹھ سے دوہزارتیئس کے درمیان پاکستان نے غیر ملکی قرض دہندگان سے 129ارب ڈالر قرض لیا۔ اس عرصے کے دوران 136 ارب ڈالر کی اصل رقم اور سود کی مد میں سات ارب ڈالر ادا کئے گئے۔ ہر سال پاکستان غیر ملکی قرض دہندگان کو ساڑھے آٹھ ارب ڈالر ادا کر رہا ہے جس میں تقریباً دو ارب ڈالر سود کی شکل میں ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اصل قرض سے زیادہ سود بن رہا ہے اور یہ چکر معیشت کے لئے نقصاندہ ہے۔ اس کے باوجود پاکستان پر اب بھی 130ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہے اور چونکہ مزید قرض لیا جا رہا ہے اِس لئے اعداد و شمار بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ پاکستان کو اگلے پانچ برس میں مجموعی طور پر 124 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس میں سے 87ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار ہوں گے اور 25ارب ڈالر سے 30 ارب ڈالر سالانہ سود کی مد میں ادا کئے جائیں گے۔ اس مسئلے کی وجہ جاری اخراجات میں خسارہ یعنی کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسڈ ہے۔ جب تک درآمدات اور برآمدات میں توازن نہیں آئے گا قومی معیشت کا انحصار قرضوں پر رہے گا اور یہی صورت دیوالیہ سے بچنے کی بھی ہے کہ معیشت اور برآمدات کے حجم میں اضافہ کیا جائے جس سے قرضوں کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی۔ پانچ سال میں پاکستان کے قومی قرضوں کا حجم بڑھ کر 150ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا جو قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریبا چھ فیصد ہوگا۔ پاکستانی اور غیر ملکی قرض دہندگان کو سود کی ادائیگی تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں پر ترقیاتی اخراجات سے زیادہ ہے۔ مالی سال 2023ء میں سود کی ادائیگی خالص وفاقی وصولیوں سے 22فیصد زیادہ رہی جس میں دیگر تمام اخراجات اور قرضے شامل تھے۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ شہری اور کاروباری ادارے معاشی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ہر سال لاکھوں نوجوان لیبر فورس میں داخل ہو رہے ہیں لیکن صنعتی ترقی رکی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے خاطرخواہ ملازمتیں پیدا نہیں ہو رہیں۔ اس معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ٹیکسوں کی صورت معاشی بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اور اس طرح کی حکمت عملی سے معیشت کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ یہ مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کی سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت میں کمی آئی ہے جبکہ برآمدات رکی ہوئی ہیں۔ سال دوہزاردس اور سال دوہزاراُنیس کے درمیان مسابقتی اور ایچ ڈی آئی انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی گر گئی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال دوہزارسترہ میں ہماری جی ڈی پی میں 1990ء کے بعد سے بمشکل اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ صورتحال متقاضی ہے کہ معیشت کو ازسرنو ترتیب دیا جائے۔ پاکستان کو ایک طویل مدتی قومی ترقیاتی پروگرام کا اعلان کرنا ہوگا جس میں صنعت کاری اہم جزو ہو چونکہ پاکستان میں صنعتی ترقی نہیں ہو رہی اسی وجہ سے ہماری برآمدات جمود کا شکار ہیں۔ پاکستان کو مینوفیکچرنگ کے شعبے پر دوبارہ توجہ دینی چاہئے۔ 32 کھرب ڈالر کی کل عالمی تجارت میں سے 16 ارب ڈالر سے زیادہ مینوفیکچرڈ اشیاء ہوتی ہیں اور اگر معیشت کے تناظر میں دیکھا جائے تو صنعتی بحالی ہی پاکستان کے معاشی مسائل کا پائیدار حل ہے۔ صنعت کاری کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کی طرف سے عزم کا اظہار شامل ہو اور اگر یہ عمل شروع کر دیا گیا تو اس کے دوران معیشت کلیدی مراحل سے گزرے گی۔ پائیدار ترقی ہمیشہ ساختی تبدیلی سے آتی ہے‘ جس میں نئی اشیا بنانا شامل ہوتا ہے جبکہ ویلیو چین کو آگے بڑھانے کے لئے معلومات کو مستقل طور پر بہتر بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ صنعتی ترقی میں تحقیق و ترقی بھی یکساں اہم ہوتی ہے لہٰذا حکومت اور نجی شعبے کو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے ”کراس کٹنگ سرگرمیوں“ کا انتخاب کرنا چاہئے جن کی کامیابی کے امکانات نسبتاً زیادہ روشن ہوں۔ ایس آئی ایف سی جیسے بااختیار ادارے اس عمل کو شروع اور اسے کامیاب بنانے کے لئے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔معیشت کو شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں بڑے پیمانے پر چھوٹی صنعتوں (ایس ایم ایز) کی ضرورت ہے۔ ایس ایم ایز کو درآمدات یا سرمائے جیسی ضروریات نہیں ہوتیں۔ وہ نئے خیالات‘ انٹرپرینیورشپ اور ملازمتوں کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ ایس ایم ایز کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کی مدد سے ملک میں پیدا ہونے والی اشیا کی گھریلو طلب میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا بڑا حصہ غیر ہنرمند ہے۔ ان کے پاس باقاعدہ نوکریاں نہیں۔ سماجی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہوگا۔ بہت ساری پیداواری سرگرمیاں اس لئے بھی کامیاب نہیں ہوتیں کیونکہ غیر ہنر مند افرادی قوت کے لئے ملازمتیں پیدا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت ایسی صنعتوں کی مدد کر سکتی ہے جو نوجوانوں کو تربیت بھی فراہم کریں۔ پاکستان نے ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ سے مؤثر طریقے سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ معاشی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی صلاحیتوں سے بہتر انداز میں تصرف کیا جائے۔شہری علاقوں میں، ہمیں نئے دور کی صنعتوں کا قیام عمل میں لانا چاہئے، جیسا کہ بیک آفس پروسیسنگ، انجینئرنگ خدمات، فری لانسنگ، اور فن ٹیک وغیرہ۔ صحیح مہارت، فنانسنگ اور بنیادی ڈھانچے کو بنانے کے لئے مدد کے ساتھ، یہ کمپنیاں تیزی سے ترقی کر سکتی ہیں۔ حکومت کو گلوبلائزیشن کے عمل اور اس کے اثرات کو بھی سمجھنا ہوگا۔ ایشین ٹائیگر بننے کے لئے افرادی قوت پر فخر اور ٹیکنالوجی پر مبنی برآمدات اب کافی نہیں رہیں۔ دنیا کو دیکھا جائے تو ابھرتی ہوئی معیشتیں اعلی ہنر مند مینوفیکچرنگ کی طرف بڑھ رہی ہیں اور یہی پاکستان کا بھی ہدف بھی ہونا چاہئے۔ پاکستان کو بڑے پیمانے پر پیشہ ورانہ تربیت اور خصوصی صنعتی شعبوں کے لئے آن لائن تربیتی معاونت کے لئے گرانٹ بھی حاصل کرنی چاہئے۔ جس سے تکنیکی عملے کو مدد مل سکتی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ہمایوں اختر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 اعلیٰ ہنر مند مینوفیکچرنگ کی طرف بڑھنے کے لئے، حکومت پاکستان کے پاس سوچا سمجھا اسکلنگ پروگرام ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاؤہ حکومت کو گورننس اور کاروباری ماحول کو سنجیدگی سے بہتر بنانا ہوگا۔ سمجھنا ہوگا کہ کمزور معیشت کی بنیادی وجہ سرمائے کی کمی نہیں بلکہ سہولیات اور نظم و ضبطکا فقدان ہے۔ صنعتی ترقی کے لئے تخیل اور سیاسی معیشت کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے اور وقت ہے معاشی بحالی کے لئے معاشی ترقی سے متعلق روائتی طور طریقوں اُور سوچ بچار کو بھی تبدیل کیا جائے۔