دہشت گرد کردار

اسرائیل انسانیت سوز جنگی جرائم میں اس حد تک پختہ ہو چکا ہے کہ اِس نے اپنے اتحادی ممالک کی جنگ بندی سے متعلق تجاویز اور مشوروں کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور غزہ کے بعد لبنان پر فوج کشی کی تیاری کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات نے عالمی جنگ کو بھڑکانے کے تمام اسباب فراہم کر دیئے ہیں اور اب تو اِس بات کا تصور کرنا بھی مشکل نہیں رہا کہ مخالفین کے مواصلاتی آلات میں اگر چین، ایران یا روس خفیہ طور پر چھیڑ چھاڑ کرتے تو اس پر مغربی دنیا کا ردعمل کیا ہوتا لیکن جب یہی کام اسرائیل کرتا ہے تو اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے صدمے اور مذمت کا اظہار کرنے کے بجائے حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی اس تکنیکی کامیابی نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا، چند مبصرین نے اعتراف کیا کہ اس طرح کے اقدامات کو دہشت گردی قرار دیا جاسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت (جن پر اسرائیل نے بھی اتفاق کیا تھا) یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ ٹیکنالوجیکل حملوں میں درجنوں افراد کے جانی نقصان کے بعد اسرائیل نے لبنان پر فضائی بمباری بھی شروع کر رکھی ہے جس میں اب تک سینکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ حزب اللہ لازماً جواب دے گا حالانکہ وہ دفاعی صلاحیت کے لحاظ سے اسرائیل سے کافی کمزور ہیں تاہم اِس مرحلہئ فکر پر اہم سوال یہ ہے کہ ایران اس پوری صورتحال میں کس حد تک غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے گا۔ امریکی محکمہئ خارجہ نے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی بدنام زمانہ ریاستوں کی ایک فہرست ترتیب دی ہے جس میں کیوبا، شمالی کوریا، ایران اور شام کو شامل کیا گیا ہیں۔ ظاہر ہے امریکہ کبھی بھی اسرائیل کو دنیا کے دہشت گرد ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کرتا۔ اس فہرست میں کبھی پاکستان کو بھی شامل نہیں کیا گیا جوکہ 1970ء اور  1980ء کی دہائیوں میں افغان مجاہدین کی محفوظ پناہ گاہ تصور کیا جاتا تھا جبکہ انہیں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور سعودی عرب کی پشت پناہی حاصل تھی۔ واشنگٹن بہت شاذو نادر ہی اسرائیل کے جنگی جرائم پر بات کرتا ہے حالانکہ اس کے دو سابق وزرائے اعظم میناہم بگین اور یتزاک شامیر دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث تھے۔ اس کے علاؤہ تمام اسرائیلی رہنماؤں نے اپنی ایجنسیز کو ایسی ’اندرونی‘ اور عالمی کاروائیوں کی چھوٹ و اجازت دے رکھی ہے جو دہشت گردی کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔ فلسطین کی حدود میں معمول کے مطابق کی جانے والی براہ راست یا بالواسطہ دہشت گردانہ کاروائیوں کے علاؤہ اسرائیل کی فوج (آئی ڈی ایف) اپنے ہمسایہ ممالک میں بھی دہشت پھیلانے اور شرپسند عناصر کی سرپرستی کرنے میں ملوث رہی ہے۔ اس کی سب سے اہم اور واضح مثال 1982ء میں صابرہ اور شتیلا میں کیا گیا قتل عام ہے جسے آئی ڈی ایف کے جنرل ایریل شیرون کی سرپرستی میں لبنانی انتہاپسندوں نے انجام دیا۔ جنرل ایریل شیرون کی سرکاری سطح پر سرزش بھی کی گئی لیکن بعدازاں اسرائیل کا وزیراعظم بننے کی راہ میں یہ خونریزی ان کے لئے رکاوٹ نہیں بنی۔امریکہ کے انتہائی دائیں بازو کے صدر رونالڈ ریگن نے اسرائیلی وزیراعظم میناہم بگین کو بیروت کے ’ہولوکاسٹ‘ کو روکنے کا حکم دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نالاں ہوئے لیکن انہوں نے امریکی صدر کی بات مانی یا شاید یہ اس لئے بھی تھا کیونکہ خود اسرائیل میں بہت سے لوگ اپنی قوم کی جانب سے لبنان میں کی جانے والی وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران بھی اسرائیل میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچانے والے اسرائیل کو امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ امریکہ اسرائیل کی طرح جنگی جرائم (خونریزی) کے لئے یکساں قصوروار ہے بلکہ درحقیقت بیسویں اور اکیسویں صدی میں دہشت گردی کو فروغ اور پُرتشدد عناصر کی سرپرستی کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ فلپائن سے اٹلی، ایران، گوئٹے مالا، کونگو، کیوبا، انڈونیشیا، تیمور، ویت نام، چلی، کمبوڈیا، افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کی بھی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ دنیا پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے اور اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے وہ منافقت اور حرص سے کام لے رہا ہے جبکہ امریکہ کے اس خواب کی تعبیر کے لئے برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا بھی اس کے اتحادی بنے ہوئے ہیں اور اہم یورپی ممالک اور گلوبل ساؤتھ کی ریاستیں بھی اپنے اپنے مفادات کی خاطر امریکہ کا ساتھ دے رہی ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اُس کی مالی و سفارتی مدد کرتا ہے اور اُس کے خلاف بننے والے ممکنہ عالمی اتحاد کو روکے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے موجودہ سربراہ اپنے تمام پیش روؤں کے برعکس فوجی پس منظر نہیں رکھتے لیکن وہ سب سے زیادہ اُور بے رحم فوجی کاروائیوں کی اجازت دیئے ہوئے ہیں۔ ان کی دہشت گردانہ صلاحیتیں ان کی توسیع شدہ مدت ِحکومت میں بڑے پیمانے پر سامنے آئی ہیں۔ نیتن یاہو کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ وہ اقتدار پر براجمان رہیں اور اس کی اہم وجہ اُن پر لگے بدعنوانی کے الزامات ہیں جنہیں پس پشت ڈالنے کے لئے انہوں نے خونریزی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بطور سیاستدان بھی وہ تعمیری سوچ کے حامل نہیں بلکہ سیاسی پستی کا شکار ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی کھلی جارحیت اور انسانیت سوز مظالم کا جواب دینے میں ایران یا حزب اللہ کس قدر دانش مندی اور حکمت سے کام لیتے ہیں۔ اسرائیل کے مظالم اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں جو کہ عالمی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں‘ امریکہ اِن سے خود کو بری الذمہ نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو کسی نہ کسی صورت قابو کر رکھا ہے لیکن مسلم ممالک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اِن دنوں جاری ہے جس میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ غیرمسلم اور لبرل ممالک نے اسرائیل کی مذمت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے انسانی حقوق کی پائمالی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے تاہم اسرائیل سے صرف اُسی صورت نمٹا جا سکتا ہے جب تک امریکہ کی جانب سے اِس کی پشت پناہی اور اسے دفاعی سازوسامان کی فراہمی بند نہیں کر دی جاتی جس کے لئے دنیا کو امریکہ پر دباؤ ڈالنا چاہئے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ماہر علی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)