جنوبی ایشیا کا جوہری مسئلہ

بھارت اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے میں لگا ہوا ہے اِس پروگرام میں وہ جوہری صلاحیت رکھنے والے طیاروں کے ساتھ زمینی اور سمندری ہتھیاروں کے نظام کو بھی جدید بنا رہا ہے جس سے جنوبی ایشیا میں اِس نازک دفاعی توازن کو غیر معمولی تناؤ کا سامنا ہے۔ جدید ترین ہتھیاروں کے نظام سے لے کر جدید ترین جوہری ہتھیاروں کی فراہمی کے پلیٹ فارمز تک اپنی تیز رفتار نیوکلیئر تیاری کے ساتھ‘ بھارت ہتھیاروں کی یک طرفہ دوڑ لگائے ہوئے ہے جو خطے کے منظر نامے کو نئی شکل دے رہی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس نے اپنی حالیہ رپورٹ ”انڈین نیوکلیئر ویپنز 2024ء“ میں کہا ہے کہ بھارت اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے اور اپنے نیوکلیئر ٹرائیڈ کو فعال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تخمینے کے مطابق ”بھارت اس وقت آٹھ مختلف جوہری پروگرام چلا رہا ہے: دو ہوائی جہاز، پانچ زمین پر مبنی بیلسٹک میزائل اور ایک سمندر پر مبنی بیلسٹک میزائل ہیں۔ اس کے علاؤہ کم از کم پانچ مزید ایسے نظام تیار کئے جا رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تکمیل کے قریب ہیں اور جلد ہی مسلح افواج کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔ جوہری جدید کاری کی یہ انتھک رفتار نہ صرف علاقائی استحکام کو نقصان پہنچائے گی بلکہ یہ دوسروں کے لئے بھی پیروی کی ترغیب بنے گی۔جنوبی ایشیا کو دنیا کے بڑے جوہری ہاٹ سپاٹس میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جہاں دو جوہری ممالک ایک دوسرے سے دشمنی اور بداعتمادی کی تاریخ رکھتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سمیت علاقائی تنازعات پر متعدد جنگیں لڑنے کے باوجود، دونوں حریف اب تک ان تنازعات کو جوہری بحران میں تبدیل ہونے سے روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے تیزی سے جدید ترین ہتھیار آ رہے ہیں، جوہری تصادم کے خطرے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا لہٰذا بھارت کا جوہری جدید کاری کا پروگرام خطے میں کمزور ڈیٹرنس مساوات کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ مذکورہ تحقیقی رپورٹ اس لحاظ سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے کیونکہ بھارت گریڈ پلوٹونیم سٹاک کر رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال دوہزارتیئس کے آغاز تک‘ بھارت پہلے ہی تقریباً 680کلوگرام ہتھیار گریڈ پلوٹونیم تیار کر چکا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ فی وار ہیڈ چار کلو گرام پلوٹونیم ہے تو نظریاتی طور پر یہ مقدار 130 سے 210 جوہری وار ہیڈز کی تیاری کے لئے کافی ہو سکتی ہے تاہم بیلفر سنٹر فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت اپنے جوہری پروگرام کو تین مختلف زمروں میں بڑھا رہا ہے۔ سویلین سیف گارڈ، سویلین غیر محفوظ اور عسکری مقاصد کے لئے۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ ایندھن اور جوہری توانائی کی سرگرمیوں کے ساتھ مل کر ہتھیاروں کے قابل استعمال پلوٹونیم کے ساتھ ہتھیاروں کی درجہ بندی میں انتہائی افزودہ یورینیم کو جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان پیش رفتوں نے بھارت کو سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا جوہری ہتھیار رکھنے والا ملک بنا دیا ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جوہری ترقی کی تیز رفتار ی نے پہلے ہی بھارت کو 172 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ جوہری ہتھیار رکھنے والا سرفہرست ملک بنا دیا ہے۔جوہری مسائل کے حل کے لئے اعتماد سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں اسلحے پر قابو پانے کا جامع ڈھانچہ ابھی تک تشکیل نہیں پا سکا ہے۔ اگرچہ دونوں حریف ممالک مشترکہ اقدامات پر متفق ہوں کہ جن میں حملہ نہ کرنے کا معاہدہ اور بیلسٹک میزائل تجربات کی پیشگی اطلاع شامل ہے لیکن ان اقدامات کو پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں ممکن ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ جوہری اعتماد سازی کی موجودہ صورتحال نازک ہے اور یہ ایسے اقدامات جن میں تخریبی ٹیکنالوجیز کے فوجی استعمال سے جڑے نئے خطرات شامل ہیں سے نمٹنے کے لئے ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔ جوہری ہتھیاررکھنے والے ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی حدود میں براہموس میزائل کے حادثاتی گرنے سے جوہری خطرات میں کمی لانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جانا چاہئے تھا لیکن بھارت نے اس اہم انتباہ کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویئے کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں جوہری خطرات میں بامعنی کمی کے امکانات تاریک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے بھارت کی جوہری جدیدکاری اور بامعنی دو طرفہ تعلقات کی خواہش کے فقدان پر آنکھیں بند کرنا بھی یکساں تشویش ناک ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے بھارت کی جوہری جدیدکاری اور اس کے خطرے کو قبول کرنے والے رویئے کے خلاف مضبوط نیوکلیئر ڈیٹرنس کو یقینی بنانا انتہائی اہم (ضروری) ہو گیا ہے۔پاکستان طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں جوہری خطرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سال 1998ء سے لے کر 2020ء تک پاکستان نے ”اسٹریٹجک ریسٹرنٹ رجیم“ کے لئے فریم ورک تجویز کیا۔ اس جامع فریم ورک میں باہمی اعتماد سازی کے اقدامات شامل ہیں جن میں جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی دوڑ کو روکنا، خطرات میں کمی کا طریقہ کار اور جوہری تنازعات سے بچنا شامل ہے۔ پاکستان نے بھارت کو جوہری تجربات سے متعلق یکطرفہ معاہدے کو دوطرفہ معاہدے میں تبدیل کرنے کی تجویز بھی پیش کر رکھی ہے تاکہ کوئی جوہری تجربہ نہ کیا جا سکے۔ بھارت نے ان تمام تجاویز کو مسترد کر دیا۔ اگرچہ بھارت اور پاکستان جوہری ہتھیاروں پر قابو پانے کے درمیان تعاون اُور دوستی کے امکانات بہت کم ہیں لیکن اس طرح کا انتظام اب بھی دونوں ممالک کے بہترین مفاد میں ہے۔ دونوں ممالک نے گزشتہ برسوں کے دوران کئی جنگیں لڑی ہیں لیکن آج کے جوہری ہتھیاروں سے لیس ماحول میں ان کا خطرہ کبھی بھی اتنا زیادہ نہیں رہا۔ یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا بحران بھی قابو سے باہر ہو سکتا ہے اور تیزی سے جوہری تصادم کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس کے دونوں ممالک اور پورے خطے کے لئے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے تباہ کن نتائج سے بچنے کے لئے، بھارت اور پاکستان کو بات چیت، امن اور پائیدار مذاکرات کرنا ہوں گے لہٰذا بھارتی قیادت کو پاکستان کی امن تجاویز کا مثبت جواب دینے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یاسر حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)