صنعتی ترقی: لائحہ عمل

پاکستان میکرو استحکام حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے اور کئی دہائیوں کی کوششوں کے باوجود بھی اسے یہ استحکام حاصل کرنے میں تاحال کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اب تک کئے گئے قلیل مدتی اقدامات جیسا کہ قرضوں کی واپسی اور درآمدات پر قابو پانے سے کچھ وقت کیلئے استحکام ملا جو پائیدار ثابت نہیں ہوا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرے اور ترقیاتی حکمت عملی وضع کرے‘ جس سے پاکستان کا بیرونی مدد یا قرضوں پر انحصار مستقل بنیادوں پر کم کیا جا سکے۔ ترقیاتی حکمت عملی کا اہم جزو صنعت کاری کو فروغ دینا ہونا چاہئے۔ پاکستان کے لئے صنعتوں کا فروغ اہم اور ضروری ہے کیونکہ اس کا ترقی کے ساتھ ثابت شدہ تعلق ہے۔ اس سے معیشت کو نئی اور زیادہ پیچیدہ اشیاء بنانے کی ترغیب ملتی ہے۔ نجی اور سرکاری شعبے منصوبہ بندی کے ساتھ مربوط کام کرتے ہیں تاکہ معیشت ہائی ٹیک سازوسامان کی تیاری کی طرف جا سکے۔ چند دہائیوں سے پاکستان کی صنعت مقدار اور معیار دونوں کے لحاظ سے تنزلی کا شکار ہے‘1960ء کی دہائی میں پاکستان کی برآمدات تھائی لینڈ اور سری لنکا کے مقابلے میں زیادہ تھیں لیکن اب یہ بہت پیچھے ہیں‘ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ مینوفیکچرنگ میں پاکستان کا حصہ تقریباً تیرہ فیصد ہے بھارت اس سے کچھ زیادہ ہے لیکن تھائی لینڈ، ویت نام اور بنگلہ دیش کا تناسب بائیس سے پچیس فیصد کے درمیان ہے‘ سرمایہ کاری یا مجموعی فکسڈ کیپیٹل فارمیشن کے لحاظ سے جی ڈی پی کے بارہ فیصد کے ساتھ پاکستان مذکورہ بالا معیشتوں سے پیچھے ہے‘بھارت، بنگلہ دیش، ویت نام اور تھائی لینڈ کا تناسب جی ڈی پی کا تیئس سے اکتیس فیصد کے درمیان ہے‘ پاکستان کئی دیگر شعبوں میں بھی اپنا مقام کھو چکا ہے۔ معاشی پیچیدگی بھی ایسا ہی ایک پیمانہ ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو یہ معاشرے کے علم کا جامع پیمانہ ہے جو اس قسم کی اشیا میں تبدیل ہوتا ہے جو وہ بناتا ہے۔ ایم آئی ٹی کی میڈیا لیب اور ہارورڈ کے کینیڈی سکول نے مشترکہ طور پر انڈیکس تیار کیا ہے۔ معاشی پیچیدگی اور جی ڈی پی فی کس آمدنی کے درمیان تعلق ہوتا ہے۔ سال دوہزاراکیس میں پاکستان مذکورہ انڈکس کے مطابق عالمی درجہ بندی میں 94ویں نمبر پر تھا۔ بھارت 42ویں، تھائی لینڈ 23ویں اور چین 18ویں نمبر پر تھا۔ پاکستان ڈبلیو ای ایف کی مسابقتی صلاحیت اور یو این ڈی پی کے ایچ ڈی آئی انڈیکس میں بھی نچلے درجے پر فائز ہے۔ پاکستان میں لیبر کی پیداواری صلاحیت میں بھی کمی آ رہی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی صنعت کی حالت انتہائی خراب ہے۔ صنعتی ترقی کیلئے بہت سے شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے قومی فیصلہ سازوں پر منحصر ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں کا تصور کریں جو قومی خوشحالی پیدا کریں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو وراثت میں ملی ہو یا تحفے میں دی گئی ہو۔ گزشتہ دہائی میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہنے کی پالیسی کا تسلسل معاشی حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث ثابت ہوگا۔ ویلیو چین کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستان کو سوچی سمجھی صنعتی پالیسی کی ضرورت ہے جو ہماری مصنوعات کو برآمدات کے لئے عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنائے۔ صنعتی پالیسی پیداوار کو مسلسل اپ گریڈ کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے کے لئے ایک طویل مدتی منصوبہ ہوگا۔ ایک ایسی معیشت کے لئے جو فی الحال ’لو ٹیک (Low Tech)‘ مصنوعات تیار کرتی ہے‘ صنعت کی ترقی آہستہ ہونی چاہئے۔ فی الحال پاکستان کے پاس پیچیدہ سازوسامان کی پیداوار کرنے کے تربیت یافتہ افرادی قوت (سرمایہ) نہیں ہے۔ نہ ہی حکومت تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) اور تربیت کے ذریعے مدد فراہم کر رہی ہے۔ مخصوص مواقعوں پر‘ فرموں کو ترجیحی کریڈٹ یا لاجسٹکس میں سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا امور قومی صنعتی پالیسی کا حصہ ہونا چاہئیں۔ صنعتوں کا فروغ آنکھ جھپکتے نہیں ہوتا بلکہ یہ قدم بہ قدم عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ معیشت کی موجودہ کمزوری سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ امپورٹ کنٹرول یا امپورٹ ٹیکس میں اضافے جیسے قوانین میں تبدیلی سے بھی صنعتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ کمپنیاں مقامی حالات کے مطابق نئی ٹیکنالوجیوں کو ڈھالنے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ صنعتوں کے فروغ کے لئے حکومتی سرپرستی ضروری ہے۔ سیاحت‘ کال سینٹرز اور ترجمہ اور تشریح جیسی سہولیات کی تیاری کیلئے صنعتوں کو راغب و متوجہ کرنا بھی یکساں اہم و ضروری ہے اگر قومی فیصلہ ساز صنعتوں کو فوری مالی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دیں تو اس سے معیشت کو کم فائدہ ہوگا لیکن اگر افرادی قوت کی تربیت میں سرمایہ کاری کر کے صنعتوں کو تحقیق و ترقی کی جانب راغب کیا جائے تو اس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ہمایوں اختر خان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)