لازوال دوستی سے حاصل اسباق

چین کے قومی دن کے موقع پر پاک چین دوستی کا جائزہ لیا جائے تو یہ ’ثابت قدم‘ کی عکاسی کر رہی ہے۔ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پاکستان اُور چین کے درمیان باہمی اعتماد، خیر سگالی اور خوشحالی کے مشترکہ وژن پر مبنی منفرد رشتہ قائم ہے۔ ابتدائی سفارتی تعلقات سے لے کر موجودہ اسٹریٹجک اتحاد تک‘ چین اور پاکستان کے تعلقات گہرے اقتصادی تعاون پر مبنی ہیں جس کی مثال چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ کے دور اندیش بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت سی پیک کا ارتقا ہوا اُور یہ دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سی پیک صرف انفراسٹرکچر منصوبہ نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ یہ ایک نئے ترقیاتی تعاون کی نمائندگی کرتا ہے جو اقتصادی رابطے، علاقائی انضمام اور مشترکہ خوشحالی پر زور دیتا ہے۔ بنیادی طور پر سی پیک صدر شی جن پنگ کے اقتصادی تعلقات اور ترقی کے ذریعے عالمی امن، استحکام اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے وژن سے مطابقت رکھتا ہے۔ بی آر آئی کے تحت چین اقتصادی راہداریوں کا ایک ایسا نیٹ ورک قائم کرنا چاہتا ہے جو تمام خطوں میں تعاون، تجارت اور رابطے کو فروغ دے اور سی پیک کو اس عالمی وژن کا اہم ستون بنائے۔ علاقائی رابطوں اور اقتصادی تعاون میں سی پیک کا کردار مسلمہ ہے۔ اپنے آغاز سے لے کر اب تک سی پیک نے علاقائی رابطوں اور تعاون کو فروغ دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ شاہراہوں، انرجی پلانٹس اور بندرگاہوں سمیت بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کے ذریعے سی پیک نے نہ صرف پاکستان کی معیشت کو مضبوط کیا ہے بلکہ خطے میں غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر، گوادر بندرگاہ اب تجارت کا مرکز بننے کے لئے تیار ہے، جو جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا اور اس سے آگے جوڑتا ہے۔سی پیک کا پہلا مرحلہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے اور اس نے پہلے ہی پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سکھر ملتان موٹر وے اور متعدد پاور پلانٹس جیسے منصوبوں سے توانائی کی دائمی قلت کو دور کرنے، سڑکوں کے نیٹ ورکس کو بہتر بنانے اور ہزاروں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔ یہ ابتدائی منصوبے بڑی حد تک حکومت سے حکومت (جی ٹو جی) کے تعاون پر مبنی تھے، جس نے ملک کی معاشی بحالی کی بنیاد رکھی۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے (فیز ٹو) میں بزنس ٹو بزنس تعاون کو تقویت دی گئی اگرچہ جی ٹو جی منصوبے جاری ہیں اُور ان کے اگلے مرحلے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری، خاص طور پر صنعتی تعاون، زراعت، ٹیکنالوجی اور سیاحت کے شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان اور چین پہلے ہی خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈ) کے قیام سمیت متعدد منصوبوں پر بات چیت کر رہے ہیں، جس سے صنعت کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خاص طور پر رشکئی، دھابیجی اور علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی جیسے ایس ای زیڈز سے دس لاکھ سے زائد ملازمتی مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے۔ یہ ایس ای زیڈز پاکستانی اور چینی سرمایہ کاروں دونوں کو راغب کرنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہیں، جس سے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور استعداد کار میں اضافہ ممکن ہو سکے گا اور اس طرح پاکستان کی صنعتی اور معاشی ترقی کے لئے ایک موقع فراہم ہوگا۔ چین کی تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی پاکستان کے لئے سبق آموز ہے۔ چند دہائیوں میں چین نے 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے۔جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس کامیابی کی جڑیں چین کی طویل مدتی منصوبہ بندی، سیاسی استحکام، پالیسیوں کے تسلسل اور جاری اصلاحات پر مرکوز ہیں۔ پاکستان کو بھی اسی راستے پر چلنا ہے۔ ہماری ترقیاتی حکمت عملی میں امن، استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے، جو معاشی ترقی کے اہم عوامل ہیں۔ پاکستان کی قیادت ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لئے پرعزم ہے جو صدر شی جن پنگ کی تجویز کردہ پانچ نئی راہداریوں سے مطابقت رکھتی ہیں، جن میں گروتھ کوریڈور، لائیولی ہوڈ کوریڈور، گرین کوریڈور، انوویشن کوریڈور اور شمولیتی راہداری شامل ہیں۔پاکستان کے فیصلہ ساز چین کے ساتھ دوستی کی رفتار اُور تعاون برقرار رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔ سیاسی استحکام، پالیسی کے تسلسل اور انسانی سرمائے کی ترقی پر توجہ کے ساتھ پاکستان سی پیک کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کو یقینی بنا سکتا ہے کہ یہ اہم شراکت داری دونوں ممالک کے لئے دیرپا فوائد لائے گی۔ آج جب ہم چین کا قومی دن منا رہے ہیں تو ہمیں اپنے چین کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی اور مشترکہ مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ (مضمون نگار وفاقی وزیر ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر احسن اقبال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)