بھارت ایک ایسی شاطرانہ غیرجانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے دنیا آگاہ ہے اور اس پر بھارت کے قریبی دوست ممالک بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ بھارت امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ چالاکی سے جوڑ توڑ کر رہا ہے۔ بھارت روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی قرار دیتا ہے اور اس کے دفاعی سازوسامان اور سپیئر پارٹس کا ساٹھ فیصد روس سے خریدا جاتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے حال ہی میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کو غیرضروری طور پر اہمیت دی ہے۔ امریکہ بھارت جامع عالمی اور اسٹریٹجک شراکت داری اور امریکہ بھارت دفاعی شراکت داری کے فریم ورک کے تحت امریکہ نے بھارت کو مصنوعی ذہانت، خلائی، سمندری اور کوانٹم کمپیوٹنگ سمیت جدید اسٹریٹجک ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔روس اور امریکہ نے بھارت پر دبا ڈالنے کی کوشش کی تاکہ وہ کسی ایک کیمپ کا انتخاب کر سکے جبکہ بھارت نے مزاحمت کی اور غیر جانبداری کا رویہ اپنایا ہے۔ اس کے باوجود نام نہاد غیر جانبداری وہ اسٹریٹجک زون ہے جہاں بھارت زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس کے نتیجے میں بھارت کی خارجہ پالیسی کے نکتہء نظر پر شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا۔ نریندر مودی نے اکیس سے تیئس ستمبر دوہزار چوبیس کے درمیان امریکہ کا دورہ کیا تھا تاکہ وہ کواڈ لیڈرس سمٹ میں شرکت کر سکیں جیسا کہ بھارتی وزارت خارجہ کی پریس ریلیز میں تسلیم کیا گیا کہ یہ سربراہی اجلاس اصل میں بھارت کی میزبانی میں ہونا تھا۔ یہ تقریب رواں سال کے اوائل میں نئی دہلی میں یوم جمہوریہ پریڈ کے ساتھ شیڈول تھی، جس کے لئے صدر جو بائیڈن کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا تاہم کواڈ اور اس کے مشن سے امریکہ کی وابستگی کے باوجود، صدر بائیڈن نے کواڈ سمٹ کو ملتوی کر دیا اور بھارت دورے کی دعوت بھی مسترد کر دی اگرچہ بھارت واشنگٹن کا مراعات یافتہ پارٹنر ہے لیکن امریکی سرزمین پر سکھ کارکن کے قتل کی ناکام سازش پر بھارت میں پائی جانے والی مایوسی کے پس منظر میں یہ اجلاس ملتوی کیا گیا۔ اس واقعے سے پہلے ہی بھارت کو امریکہ کے مضبوط اتحادی کینیڈا کے ساتھ تنا کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی کینیڈا میں سکھ کارکنوں کے قتل میں بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ گو کہ کواڈ پہلے سے کہیں زیادہ اسٹریٹجک طور پر ہم آہنگ ہے لیکن بھارت کی جانب سے قریبی شراکت دار کی خودمختاری کی خلاف ورزی دھوکہ دہی کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکہ نے گزشتہ سال جون میں وزیر اعظم مودی کے امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران ان کے اعزاز میں سرخ قالین بچھایا جو دیگر ممالک سے تعلقات میں بھارت کو دی جانے والی ترجیح کو ظاہر کرتا ہے۔ بائیڈن اور مودی کی ملاقات سے قبل امریکی حکام نے سکھ کارکنوں سے بھی ملاقات کی، جنہیں خطرہ ہے کہ بھارت انہیں قتل کرنے کی منصوبہ بندی رکھتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ بھارت کی شراکت داری جانچ پڑتال کی متقاضی ہے۔ روس کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تعلقات میں بھی اسی طرح کے شاطرانہ اقدامات پائے جاتے ہیں۔ ڈھائی سال قبل روس اور یوکرین کے درمیان شروع ہونے والے تنازعے کے بعد سے بھارت نے غیر جانبداری پر قائم رہنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی۔ بھارت نے ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کی حفاظت کرتے ہوئے مغربی سفارتی ہلچل کو سختی سے مسترد کردیا۔ اس دوران ملک نے روسی تیل خرید کر اور اسے یورپ کو دوبارہ فروخت کرکے جنگ کی حمایت جاری رکھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر جانبداری کے اعلان کردہ موقف پر بھارت کے لئے منافع کے مقاصد کو ترجیح دی گئی۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
بھارتی اور یورپی حکومت کے عہدیداروں کی معلومات اور تجارتی طور پر دستیاب اعدادوشمار کی بنیاد پر رائٹرز کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے تین بڑے گولہ بارود بنانے والی صنعتیں یوکرین کو توپ خانے کے گولے بیچ رہے ہیں۔ رپورٹ میں اٹلی، جمہوریہ چیک، اسپین اور سلووینیا کو یوکرین میں بھارتی گولہ بارود بھیجنے میں سہولت فراہم کرنے والے ممالک کے طور پر نامزد کیا گیا۔ دستیاب کسٹم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ فروری دوہزاربائیس سے دو سال قبل مذکورہ دفاعی برآمد کنندگان نے 2.8 ملین ڈالر کا گولہ بارود بنایا تاہم، فروری 2022 اور جولائی 2024 کے درمیان منافع بڑھ کر 135.25 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ یہ منافع میں 4700 فیصد کا حیرت انگیز اضافہ ہے اگرچہ بھارت نے اس رپورٹ کو قیاس آرائی اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کیا لیکن روس نے اس معاملے کو گہری تشویش کے ساتھ دیکھا ہے۔ روسی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے دوران اس معاملے کو اٹھایا گیا۔ بھارت طویل عرصے سے دفاعی سازوسامان کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک رہا ہے اور اب وہ برآمد کنندگان کی فہرست میں شامل ہونے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ وہ عالمی حیثیت کو پورا کرسکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بھارت کسی بھی حد تک جائے گا۔ اس راستے کو دیکھتے ہوئے شراکت داروں کے لئے محتاط رہنا دانشمندانہ ہے کیونکہ بھارتی خارجہ پالیسی اپنے بیان کردہ وعدوں اور متوقع ترجیحات کے مطابق ڈھلنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ شراکت داروں کے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت اپنے قریبی شراکت داروں اور دوستوں کی صورت مواقعوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس سے دیگر ممالک کے بھارت پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔